کراچی(این این آئی) ملک میں کینسر کا سبب بننے والی کروڑوں ٹن پٹرولیم مصنوعات درآمد کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کے فروخت کے لیے ایچ ڈی آئی پی سے کوئی ٹیسٹ بھی نہیں لیاگیا اور جو پٹرولیم مصنوعات درآمد کی گئیں وہ منظورشدہ فہرست میں شامل نہیں تھیں۔ پاکستان پٹرولیم ریفائننگ بلینڈنگ اور مارکیٹنگ رولز1971کے رول43کے مطابق کوئی بھی شخص کسی اور مصنوعات کی آمیزش والی پٹرولیم مصنوعات کی فروخت نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کی مارکیٹنگ کرسکتاہے
اور نہ ہی غیرقانونی طریقے سے مصنوعات مکس کرسکتاہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی آمیزش کو روکنے کیلیے اسٹوریج کے ٹینکوں کی اسکیلنگ اور مصنوعات کے طریقہ استعمال کے لیے وقتا فوقتا ضروری اقدامات جاری کرتا رہتا ہے اوگرا اتھارٹی تحریری طور پر کسی شخص کو یا کسی ڈیلرکوقواعد کی پابندی کرنے کے بارے میں ہدایت کرسکتاہے۔اوگرا پٹرولیم مصنوعات کو ریگولیٹ کرنے کا ذمے دار ہے اوگرا کو خطرناک مصنوعات کو فروخت سے روکناچاہیے تھا، اوگرا کی جانب سے حیسکول کمپنی پر صرف20 لاکھ روپے کا معمولی جرمانہ عائد کیا گیا،اوگرا کو مذکورہ کمپنی کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہیے تھا۔ترجمان اوگرا نے بتایاکہ اوگرا نے مقررہ قوانین کے تحت ایکشن لیا تھا اور مروجہ قانون کے تحت متعلقہ کمپنی پر جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ حیسکول کمپنی کو24 کروڑ روپے سے زائد کی غیر قانونی مصنوعات فروخت کرنے کی اجازت دی گئی تاہم آڈیٹر جنرل نے حیسکول کمپنی کے خلاف کارروائی اور ریکوری کی سفارش کی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق حیسکو ل پٹرولیم نے2کروڑ 35 لاکھ ٹن سے زائد کا پانی رولیزز گیسولین غیر قانونی طور پر درآمد کیا اورماحول کے لیے خطرناک اثرات رکھنے والی پٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔