اسلام آباد (این این آئی)پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے)کے چیف ایگزیکٹو آفیسر برنڈ ہلڈن برانڈ نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر میری دیانت داری پر شک ہے تو مجھ سے پوچھ گچھ کریں ٗ اخراجات پر نظر رکھنا حکومت کا اختیار ہے ٗ بتائے بغیر ان کی بدنامی کر نا شرمناک ہے ٗ طیارے کی لیز کے وقت سی ای او نہیں تھا ٗ سارے معاملات پی آئی اے کے بورڈ کے سامنے پیش کیے گئے۔بی
بی سی کو دیئے گئے انٹرویومیں انہوں نے کہا کہ ان اداروں کی تفتیش سے واضح ہوتا ہے کہ انھیں طیاروں کی لیزنگ کے بارے میں معلومات بالکل نہیں ہیں تو ان کو یہ سب بیٹھ کر سمجھائی جا سکتی ہیں بہ نسبت اس بات کے کہ ان کا میڈیا ٹرائل کیا جائے۔انھوں نے کہا کہ حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ اخراجات پر نظر رکھے اور اگر انھیں میری دیانت داری پر شک ہے تو وہ مجھ سے پوچھ گچھ کریں مگر اس طرح انھیں بتائے بغیر ان کی بدنامی کرنا شرمناک ہے۔ا ن سے سوال کیا گیا کہ کیا ان نقصانات کا احاطہ نہیں کیا گیا اور کیا ایک طیارہ لیز کرنا صرف ان کے ہاتھ میں تھا؟برنڈ نے جواب دیا کہ طیارے کی لیز کے وقت وہ سی ای او نہیں تھے اور سارے معاملات پی آئی اے کے بورڈ کے سامنے پیش کیے گئے جس میں بحث کی گئی اور ان کی منظوری بورڈ نے دی تھی۔ اس طیارے کی لیز کا ٹینڈر شائع کیا گیا تھا جس پر حکومت سے بھی بات کی گئی اور ٹینڈر دنیا کے سامنے تھا۔ حتیٰ کہ یہ وزیراعظم کو بھی پیش کیا گیا تھا۔برنڈ ہلڈن برانڈ نے وزیر داخلہ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیزنگ کے حوالے سے تحقیاتی ادارے کی معلومات کس قدر ہیں کیونکہ یہ موازنہ سیب کا کیلے کے ساتھ کرنے کے مترداف ہے۔برنڈ نے کہا کہ پی آئی اے کی مانگ یہ تھی کہ اسے نیا یا تقریباً نیا طیارہ ملے جس کی اندر وہ تمام سہولیات ہوں جو جدید طیاروں میں موجود
ہیں جیسے وائی فائی، فلیٹ بیڈ سیٹیں، انٹرنیٹ وغیرہ ہیں۔ تو یقینااس طرح کے طیارے کی لیز کی قیمت ایسے طیارے کے مقابلے میں زیادہ ہو گی جو دس سال پرانا ہو اور اس میں یہ سب سہولیات نہیں ہیں۔برنڈ سے جب پوچھا گیا کہ ان نقصانات سے بچنے کا کیا کوئی منصوبہ نہیں تھا؟
برنڈ ہلڈن برانڈ نے کہا کہ گذشتہ سال مارکیٹ میں طیاروں کی لیز کے ریٹ بہت مہنگے تھے کیونکہ طیاروں کی مانگ بہت زیادہ تھی اور یہ مت بھولیں کہ پی آئی اے ایسی کمپنی نہیں ہے جس کے ساتھ تمام لیزنگ کمپنیاں کام کرنا پسند کرتی ہیں ٗ تو ہمارے لیے مناسب طیارہ تلاش کرنا آسان کام نہیں تھا۔