اسلام آباد (این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنماء سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا ہے کہ تشد دکرنیوالے جان نکال لیتے پرواہ نہیں تھی مگر میری عزت پر ہاتھ ڈالا گیا ،زندہ لاش ہوں جو اپنے بنیادی انسانی حقوق کیلئے لڑ رہا ہوں، سیاست نہیں کر رہا، چاہتا ہوں میری اور میرے خاندان کی قربانی سے مستقبل میں کسی شہری، پروفیسر اور کسی جنرل کے کپڑے نہ اتریں،
چیف جسٹس مستقبل میں ایسی بدسلوکی سے شہریوں کو بچانے کیلئے واقعے کی تحقیقات کریں۔پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنماء اعظم خان سواتی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے خود پر زیر حراست ہونیوالے تشدد کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا ہے کہ تشدد کرنیوالے میری جان نکال لیتے تو پرواہ نہیں تھی تاہم میری عزت پر ہاتھ ڈالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تمام عالمی فورمز کا دروازہ کھٹکھٹائوں گا، اگر ملک میں ایک سینیٹر محفوظ نہیں ہے تو کوئی بھی شہری محفوظ نہیں ہے،چیف جسٹس مستقبل میں اس طرح کی بدسلوکی سے شہریوں کو بچانے کیلئے اس واقعہ کی تحقیقات کریں۔انہوں نے آئین پاکستان کو ہاتھ میں اٹھا کر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں موجود قوانین کا ایک ہزار یا چند سو لوگوں پر اطلاق نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ آرمی چیف سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)کے سائبر کرائم وِنگ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایاز کو جی ایچ کیو میں طلب کریں، ان سے پوچھیں وہ میرے ساتھ ہوئی زیادتی کی تفصیلات 5منٹ میں بتائیں گے کیونکہ میں نے دیکھا تھا کہ مجھے حراست میں لئے جانے کے وقت وہ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر تھا۔اعظم سواتی نے کہا کہ حراست میں لئے جانے کے بعد پورے راستے وہ مجھے مارتے رہے اور میری ویڈیو بناتے رہے، انہوں نے کہا کہ تحقیقات ہونی چاہئیں کہ کون شخص تھا جو مجھے برہنہ کئے جانے کے وقت مذاق اڑا رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ مجھ پر تشدد میری عزت اور خاندان کی عزت پر حملہ ہے، انہوں نے کلمہ پڑھ کر کہا کہ میرے الفاظ سچ پر مبنی ہیں، مجھ پر تشدد کیا گیا، میرے کپڑے اتارے گئے۔انہوں نے کہا کہ یہ 74سالہ سینیٹر آپ کیلئے باعث شرم نہیں بن رہا، میں زندہ لاش ہوں جو اپنے بنیادی انسانی حقوق کیلئے لڑ رہا ہوں،
میں سیاست نہیں کر رہا، میں چاہتا ہوں کہ میری اور میرے خاندان کی اس قربانی کی وجہ سے مستقبل میں کسی شہری، پروفیسر اور کسی جنرل کے کپڑے نہ اتریں۔انہوں نے سپریم کورٹ سے بھی درخواست کی کہ وہ ان کے گھر کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرے اور ان کے دعوں کی سچائی کا تعین کرنے کے لیے فارنزک آڈٹ کا حکم دے۔انہوں نے کہا کہ میں ارشد شریف کی طرح شہید نہیں ہوا،
میں زندہ ہوں، آرمی چیف براہ مہربانی اپنے ادارے کے لوگوں کو میرے پاس بھیجیں تاکہ اس بات کا پتلا چلایا جائے کہ ایک سینیٹر کے ساتھ ایسا وحشیانہ کھیل کس نے کھیلا۔ اعظم سواتی نے اپنے کیس کو سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو بھیجنے پر چیف جسٹس کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے اصرار کیا کہ یہ مقدمہ انسانی حقوق سے متعلق ہے،
اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انہوں نے چیف جسٹس اور ملک کے دیگر ججوں سے اپیل کی کہ وہ انصاف فراہم کریں اور اس طرح کے ماورائے عدالت سلوک کو دوبارہ ہونے سے روکیں۔اعظم سواتی نے کہا کہ میرا واحد جرم ایک طاقتور شخص کے بارے میں ٹوئٹ کرنا تھا،
میں ایک سینیٹر ہوں اور میں پاکستان کے سپریم کمانڈر سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت اپنے اختیارات استعمال کریں، اگر یہ جرم تھا تو عدالتی کارروائی کی جائے۔اعظم سواتی نے امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ اس کیس میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔