ہفتہ‬‮ ، 05 جولائی‬‮ 2025 

اسلام آباد کا سیف سٹی پراجیکٹ حکومت کیلئے سفید ہاتھی بن گیا

datetime 31  جولائی  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)دارالحکومت اسلام آباد میں 6 سال قبل ساڑھے 12 کروڑ روپے مالیت کا سیف سٹی پروجیکٹ کا افتتاح کیا گیا جو تاحال مطلوبہ نتائج اور اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پولیس حکام نے بتایا کہ اس سسٹم کی مدد سے کسی ایک واردات یا جرم کو روکا نہیں جاسکا اور نہ ہی کسی مجرم کو گرفتار کیا گیا، اس کے علاوہ 2 اسکینرز (جو کہ اس منصوبے کا حصہ تھے) بھی

غائب ہوگئے جن کا کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا۔سینئر پولیس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیف سٹی پراجیکٹ کو جون 2016 میں ایک ہزار 950 سی سی ٹی وی کیمروں کے ساتھ آپریشنل کیا گیا تھا تاہم اس کے بعد سے اب تک اس سسٹم کی مدد سے کسی بھی واقعے یا جرم کی روک تھام نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کیمروں سے کسی مجرم، مشتبہ شخص یا اشتہاری ملزم کو گرفتار کیا جاسکا۔انہوں نے بتایا کہ یہ منصوبہ پولیس کو مجرمانہ سرگرمیوں کے بعد فرار ہونے والے ملزمان کا پیچھا کرنے اور گرفتار کرنے میں مدد دینے میں بھی ناکام رہا۔سیکیورٹی کیمروں کے ذریعے لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ کر دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے یہ منصوبہ 2014 میں شروع کیا گیا تھا، 6 ارب روپے کے اس منصوبے کا آئیڈیا ابتدائی طور پر 2008 میں پیش کیا گیا تھا تاہم 2014 تک فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسے شروع نہیں کیا جا سکا۔

منصوبے کے تحت سی سی ٹی وی کیمروں سے نگرانی کیلئے کنٹرول روم میں 130 ایل ای ڈی اسکرینیں لگائی گئیں، یہ اسکرینیں 25 کروڑ روپے کے جدید ترین سافٹ ویئر سے لیس ہیں جو اس وقت صرف امریکا اور انگلینڈ میں استعمال ہو رہے ہیں۔افسران نے بتایا کہ اس منصوبے کا مقصد دہشت گردی اور جرائم کی روک تھام اور مشتبہ افراد پر نظر رکھنا اور کیمروں سے نگرانی کے ذریعے مطلوبہ ملزمان کو گرفتار کرنا تھا۔

جرم کے ارتکاب کے بعد فرار ہونے والے مجرموں کا پیچھا کرنا اور انہیں گرفتار کرنا بھی اس منصوبے کے مقاصد میں شامل تھا تاہم حکام کے مطابق ایک ہزار 806 انٹرایکٹو ویڈیو سسٹمز (آئی وی ایس) اور 191 آٹومیٹک نمبر پلیٹ ریڈرز کے باوجود 6 سال کی مدت کے دوران یہ منصوبہ بے انتظامی اور دیگر وجوہات کے سبب اپنے بنیادی مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

افسران نے بتایا کہ یکم جنوری 2016 سے اسلام آباد پولیس نے 57 ہزار 719 مقدمات درج کیے، جن میں شہریوں کے خلاف 7 ہزار 628 جرائم اور ڈکیتی اور چوری کی 17 ہزار 857 وارداتیں شامل تھیں لیکن ان جرائم کی روک تھام کے لیے سیف سٹی پروجیکٹ کا تعاون 15 فیصد سے زیادہ نہیں رہا تاہم اس منصوبے نے پولیس کو موجودہ حکومت کے خلاف احتجاج اور مظاہروں پر قابو پانے اور مظاہرین کی شناخت میں مدد فراہم کی لہذا افسران کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس منصوبے نے شہریوں کی بجائے حکومت کی خدمت کی۔

اس سے قبل پولیس نے روایتی پولیسنگ کے ذریعے مقدمات کو حل کیا اور مجرموں کو گرفتار کیا جسے موبائل ٹریکنگ سسٹم یا جیو فینسنگ سے تبدیل کردیا گیا، اس لیے سیف سٹی سے کوئی فرق نہیں پڑا تاہم اس سے محض تفتیش کاروں کے کام میں آسانی ہوئی۔سی سی ٹی وی کی ریکارڈنگ کو محفوظ کرنے کیلئے کوئی مناسب بیک اپ نہیں ہے اور 60 روز کی ریکارڈنگ کے لیے صرف ایک بیک اپ دستیاب ہے۔

زیادہ تر اوقات مختلف وجوہات کی بنا پر یہ سی سی ٹی وی کیمرے غیر فعال ہوجاتے ہیں، گزشتہ ایک ماہ کے دوران تقریباً 300 سی سی ٹی وی کیمروں کی مرمت کر کے انہیں دوبارہ آپریشنل کیا گیا۔افسران نے کہا کہ اب سیف سٹی پروجیکٹ کے کنٹرول روم کو چلانے کے لیے سی سی ٹی وی اور سافٹ ویئر پرانے ہو چکے ہیں، یہ سی سی ٹی وی کیمرے رات کے وقت یا بارش میں کام نہیں کر سکتے۔

لہٰذا اس منصوبے سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بہت سے مسائل ہیں۔اس منصوبے کے تحت اسلام آباد میں ایک ہزار 997 کیمرے نصب کیے گئے تھے تاہم گزشتہ 6 برسوں کے دوران دارالحکومت کی حدود میں توسیع ہوچکی ہے اور اب ان کیمروں کی موجودہ تعداد اسلام آباد کے صرف 40 فیصد علاقوں کی نگرانی کر سکتی ہے۔سیف سٹی پراجیکٹ آفس میں صرف 70 اسکرینیں نصب ہیں اور 72 اہلکاروں کی ٹیم مختلف شفٹوں میں اسکرینوں کی نگرانی کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1997 سے سی سی ٹی وی کی تعداد کو 4 ہزار تک بڑھانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ نگرانی کے لیے زیادہ اسکرینیں اور عملہ دستیاب نہیں ہے۔افسران نے بتایا کہ سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت 2 اسکینرز بھی خریدے گئے تھے اور ان میں سے ایک اس وقت کراچی کو دیا گیا تھا جبکہ دوسرا اسکینر غائب ہو گیا۔

رابطہ کرنے پر پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ کْل ایک ہزار 997 سی سی ٹی وی کیمرے تھے جن میں سے اس وقت ایک ہزار 992 آپریشنل ہیں۔انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ سیف سٹی پراجیکٹ کی مدد سے اب تک ایک بھی واردات/جرم کو نہیں روکا گیا اور نہ ہی کوئی مجرم پکڑا گیا جبکہ اس کے آپریشنل ہونے کے بعد سے 3 ہزار 785 کیسز حل کیے جا چکے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سی سی ٹی وی کیمروں تک صرف پولیس کی رسائی ہے، تاہم اگر ضرورت ہو تو دیگر ایجنسیوں اور محکموں کو مناسب پروٹوکول کے ذریعے رسائی دی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ شہریوں کی رازداری کو بین الاقوامی قوانین اور الیکٹرانک ڈیٹا ریگولیشنز ایکٹ 2016 کے ذریعے یقینی بنایا جاتا ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



وائے می ناٹ


میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…