واشنگٹن (این این آئی)امریکی کانگریس کی خاتون رکن الہان عمر نے ایوان میں ایک قرارداد پیش کی ہے جس میں بھارت میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے سیکریٹری اسٹیٹ اینٹونی بلنکن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بھارت کو خاص تشویش ناک
ملک قرار دیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق مذکورہ قرارداد قانون ساز راشدہ طالب اور جووان ورگس کی حمایت سے جمع کروائی گئی ۔امریکا کی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی(یو ایس سی آئی آر ایف)کی رپورٹ کے نتائج کی بنیاد پر قرارداد میں بھارت کو خاص تشویش کا حامل ملک قرار دینے کی دلیل پیش کی گئی ۔قرارداد کے مطابق، یو ایس سی آئی آر ایف رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بھارتی حکومت نے ملک کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف موجودہ اور نئے قوانین اور ساختی تبدیلیوں کے استعمال کے ذریعے قومی اور ریاستی سطح پر ہندو ریاست کے اپنے نظریاتی وژن کو منظم کرنا جاری رکھا ہوا ہے۔قرارداد میں رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا گیا کہ بھارت میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام اور انسداد بغاوت کے قانون جیسے قوانین کے استعمال کا مقصد حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے کسی بھی شخص کو خاموش کرنے کے لیے خوف کا ماحول پیدا کرنے کا ایک ہتھکنڈا ہے۔بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا کہ بھارتی حکومت کی طرف سے مذہبی اقلیتی رہنمائوں پر جبر اور بھارت میں مذہبی رواداری کے لیے آوازیں اٹھانے والے رہنمائوں کے اقدامات کا بھی ذکر کیا گیا جن میں جیسوئٹ انسانی حقوق کے محافظ فادر اسٹین سوامی اور مسلم انسانی حقوق کے سربراہ خرم پرویز شامل ہیں۔
قرار داد میں کہا گیا کہ رپورٹ میں بھارتی حکومت کی بین المذاہب جوڑوں اور ہندو مذہب سے عیسائیت یا اسلام قبول کرنے والوں کو مجرمانہ طور پر ہراساں کرنے اور دبا ڈالنے کی بھی متعدد مثالیں شامل ہیں۔قرارداد کے متن کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا کہ 2021 میں مذہبی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے محلوں، کاروباروں، گھروں اور عبادت گاہوں پر متعدد حملے کیے گئے اور ان میں سے کئی واقعات پرتشدد، بلا اشتعال اور
کئی سرکاری اہلکاروں کی طرف سے حوصلہ افزائی کرنے یا اکسانے سے رونما ہوئے تھے۔قرارداد میں کہا گیا کہ رپورٹ میں 2021 کے آکسفیم انڈیا کے مطالعے کا مزید حوالہ دیا گیا جس میں پتا چلا کہ بھارت میں کورونا کے اضافے کے دوران ایک تہائی مسلمانوں کے ساتھ ہسپتالوں میں امتیازی سلوک کیا گیا۔قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ جون 2022 تک یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی مذہبی آزادی یا عقائد سے متعلق متاثرین کی فہرست میں 45
بھارتی شہریوں کی فہرست دی تھی جن میں سے تمام کو ان کی حراست میں لیا گیا تھا اور ضمیر کے ان 45 قیدیوں میں سے 35 تاحال زیر حراست ہیں۔الہان عمر نے قرارداد میں کہا کہ بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق رپورٹ نے 2021 کے دوران بھارت میں مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات کا منظرنامہ بھی پیش کیا ہے۔قرارداد میں مزید کہا گیا کہ ایک پریس کانفرنس کے دوران رپورٹ
کا آغاز کرتے ہوئے اینٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ بھارت جو کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور عقائد کے وسیع ہم آہنگی کا گھر ہے لیکن اب ہم اس بھارت میں لوگوں اور ان کی عبادت گاہوں پر بڑھتے ہوئے حملے دیکھ رہے ہیں۔قرارداد میں حوالہ دیا گیا ہے کہ اسی پریس کانفرنس میں بین الاقوامی مذہبی آزادی کے سیفر رشاد حسین نے کہا تھا کہ بھارت میں متعدد مذہبی اقلیتوں بشمول عیسائیوں، سکھوں، دلت ہندوں، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف
بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر ہمیں تشویش ہے۔ان تمام باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے قراردادکے آخر میں کہا گیا کہ ایوان نے بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بین الاقوامی مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی۔قرارداد میں مزید کہا گیا کہ ایوان نے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بدتر سلوک کے بارے میں بھی گہری تشویش کا اظہار کیا اور اینٹونی بلنکن سے مطالبہ کیا کہ وہ 1998 کے بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت بھارت کو خاص تشویش کا حامل ملک کے طور پر نامزد کریں تاہم، قرارداد خارجہ امور کی کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔