اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) شہباز حکومت نے تعلیمی اخراجات کی ادائیگیوں پر برسہا برس سے وصول ہونے والا ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا ہے۔ نان پرافٹ مخصوص اداروں کی آمدنی پر ٹیکس کا استثنیٰ دیدیا ہے۔ آر ای آئی ٹی مینجمنٹ کمپنی اور این سی سی پی ایل کی دی گئی سروسز پر صرف تین فیصد تخفیف شدہ ریٹ سے ٹیکس لیا جائیگا۔ مشینری کے کرائے پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔
ٹیکس سے استثنیٰ والے اداروں کو ایڈوانس ٹیکس سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔ روزنامہ جنگ میں حنیف خالد کی شائع خبر کے مطابق انڈسٹریل ادارہ اپنے ذاتی استعمال کیلئے جتنا بھی میٹریل امپورٹ کریں گی اُن سے وصول کئے گئے ٹیکس کی ایڈجسٹمنٹ ہوا کریگا۔ مخصوص خدمات مہیا کرنے والوں اور ریٹیلرز پر ٹیکس رجیم فکس کرنے کے علاوہ کسی کا ایک بار اگر ٹیکس آڈٹ ہو جائیگا تو چار سال بعد ہی دوبارہ آڈٹ کرنے کی گنجائش ہو گی۔ کمپنیوں کی ادائیگی کے ڈیجیٹل موڈ کو اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اگر ایسوسی ایشن آف پرسنز کی آمدن ٹیکس سے مستثنیٰ ہے تو اُس کے پارٹنرز کی آمدنی بھی ٹیکس سے استثنیٰ حاصل کر سکے گی۔ فنانس بل میں نیا سینکرو نائزڈ ود ہولڈنگ ایڈمنسٹریشن پیمنٹ سسٹم متعارف کرایا گیا ہے۔ آڈٹ پروسیجر کی سٹریم لائننگ کی گئی ہے۔ منصفانہ فیصلوں کی خاطر میعاد کا تعین پانچ سے بڑھا کر چھ سال کر دی گئی ہے۔ ایف بی آر کے حکام کو کیس کا فیصلہ کرنے کیلئے 120ایام کی بجائے 180ایام دے دیئے گئے ہیں۔
منی ٹرانسفر آپریشنز کے ذریعے ترسیلات زر کے متعلق وضاحت شامل کی گئی ہے۔ بینیفشل آنر کے تصور کو فنانس بل میں شامل کیا گیا ہے۔ پوائنٹ آف سیلز رجیم کو سیلز ٹیکس شقوں اور پرائس سکیم کے متعارف کرانے سے جوڑ دیا گیا ہے۔
نان ریزیڈنس کو ادائیگی پر ٹیکس کے اسکوپ میں اضافے اور آف شور ڈیجیٹل سروسز پر ٹیکس پانچ سے بڑھا کر دس فیصد کر دیا گیا ہے۔ ٹیکس ریزیڈنس فرد بننے کا کرائٹیریا بڑھا دیا گیا ہے۔ کریڈٹ ڈیبٹ کارڈ کی ادائیگی پر ایڈوانس ایڈجسٹ ایبل ٹیکس کا نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ ٹیکس گزاروں کی تعداد بڑھانے کیلئے ایف بی آر اور نادرا کے درمیان شیئرنگ آف انفارمیشن کا نظام بنایا گیا ہے۔