قصور/لاہور(نیوزڈیسک)قصورمیں بچوں کو زبردستی جنسی تشدد کا نشانہ نہیں بنایاگیا، پولیس افسر کے انکشافات نے مزیدآگ لگادی،شیخوپورہ رینج کے ریجنل پولیس افسر صاحبزادہ شہزاد سلطان نے کہا ہے کہ قصور کے گاو ں حسین والا میں بچوں کو مبینہ طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے مقدمے میں پولیس کے پاس 30 ویڈیوز آئی ہیں جن میں کہیں بھی یہ تاثر نہیں ملتا کہ ان بچوں کو زبردستی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا . 30 ویڈیوز میں نو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے .ویڈیو کلپس کے ذریعے ہی اس میں ملوث سات ملزمان کو حراست میں لیا گیا ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ا ±نھوں نے کہا کہ گرفتار ہونے والے سات ملزمان پولیس کی تحویل میں ہیںجن کا مزید جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کےلئے انھیں عدالت میں پیش کیا گیا ہے، دیگر چھ ملزمان نے ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے۔شہزاد سلطان کے مطابق جن چھ ملزمان نے ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے وہ گرفتار ہونے والے ملزمان کے باپ اور چچا ہیں۔ا ±نھوں نے بتایا کہ کچھ ویڈیو جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں نے پولیس کو فراہم کیں ¾زیادہ تر ویڈیوز ملزمان کے قبضے سے برآمد کی گئی ہیں ریجنل پولیس افسر کے مطابق ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد یہ بات بے معنی ہوجاتی ہے کہ ملزم اور زیادتی کا شکار ہونے والوں کی رضامندی شامل تھی۔ا ±نھوں نے دعویٰ کیا کہ مقامی میڈیا پر 285 بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کی خبریں آ رہی ہیں جبکہ ابھی تک پولیس کے پاس ان واقعات سے متعلق سات مقدمے درج ہوئے ہیں۔شہزاد سلطان کے مطابق اس واقعے سے متعلق پہلا مقدمہ درج ہونے کے بعد پولیس نے متاثرہ گاو ¿ں میں جاکر مساجد میں اعلان بھی کروائے ہیں کہ اگر کوئی بھی جنسی تشدد کا شکار ہوا ہے وہ آ کر پولیس کو اطلاع دے لیکن ابھی تک کوئی نیا مقدمہ درج نہیں ہوامقامی آبادی کے رہائشی عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ گاو ¿ں کے بہت سے بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے لیکن عزت کی خاطر یہ لوگ پولیس کو شکایت درج کروانے سے گریزاں ہیں۔ا ±نھوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس اہلکار بھی لوگوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر انھوں نے ان واقعات کے بارے میں رپورٹ درج کروائی تو یہ ا ±ن کے حق میں بہتر نہیں ہو گا۔آر پی او کے مطابق گرفتار ہونے والے افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں اور مقدمات کی سماعت لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہو گی۔دوسری جانب پنجاب حکومت کی طرف سے اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کروانے کا خط لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس کو موصول ہوگیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جنسی زیادتی کے ان واقعات کی انکوائری کے لیے سیشن جج کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا جائے۔