قصور(نیوزڈیسک)پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ہیڈ صبا صادق نے اسکینڈل کو بچوں سے زیادتی کا ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل قرار دیا ہے ، اور اس کی انکوائری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ معاملے پر وفاقی سطح پر آواز اٹھاﺅں گی ۔اس حوالے سے ڈی پی او قصوررائے بہادرنے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پولیس کو بچوں سے زیادتی کی ویڈیوزکے 60 سے70کلپ ملے ہیں تاہم قابل شناخت لوگ بہت کم ہیں اور چھ سات لوگوں کی شناخت ہوسکتی ہے جنہیں حراست میں لیاجاچکاہے۔ انہوں نے کہاکہ کچھ لوگ ایسے افراد کو بھی گرفتار کراناچاہتے ہیں جو واقعہ میں ملوث نہیں حقیقی مجرموں کیخلاف ہی چالان پیش ہوناچاہیے کیونکہ دوسرے لوگوں کو ملوث کرنے سے اصل مجرم بھی بچ سکتے ہیں انہوں نے کہاکہ واقعہ کے پیچھے گاﺅں کے لوگوں کے آپس میں لڑائی جھگڑے کے چھوٹے چھوٹے وااقعات اوراراضی کے تنازعات بھی شامل ہیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ملزموں پر تشدد نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ان سے قانون کے مطابق تفتیش کی جارہی ہے کیونکہ ملزموں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ آر پی او شیخوپورہ شہزاد سلطان کا موقف ہے کہ نعیم نامی شخص کے دوستوں نے 19 ایکڑ ارضی کا سودا کیا جس کی رقم پر تنازع ہو گیا۔ ایک طرف ماسٹر ظفر اور دوسری طرف نعیم گروپ ہے۔ پولیس کے اس موقف نے کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں اگر یہ صرف اراضی کا تنازع ہے تو پھر پولیس نے 8 ملزم کس جرم میں گرفتار کیے ؟۔ ڈی پی او قصور تسلیم کرتے ہیں کہ زیادتی کے واقعات ہوئے مگر کم اگر زیادتی کے واقعات نہیں ہوئے تو ایک ماہ میں 7 مقدمات درج کیسے ہو گئے ؟۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد جلد از جلد ملزم گرفتار کرنے کے احکامات کیوں دیئے؟۔ قصور پولیس تسلیم کرتی ہے کہ دونوں گروپ بااثر ہیں کہیں پولیس زیر اثر تو نہیں آ گئی؟۔ قصور کا زیادتی اسکینڈل پولیس سے غیر جانبدار تحقیقات کا تقاضا کرتا ہے لیکن لگتا ہے پولیس اپنا دامن بچانے کی کوششوں میں ہے۔