اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معلوم ہوا ہے کہ ابھی تک کوئی ڈیل نہیں ہوئی اور نواز شریف مستقبل قریب میں جلد واپس نہیں آ رہے۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق باخبر ذرائع نواز شریف کی آئندہ چند ہفتوں (جنوری 2022ء میں) میں واپسی کے حوالے سے جاری قیاس آرائیوں پر یقین نہیں رکھتے۔ ان ذرائع نے تردید کی ہے کہ کوئی ڈیل ہوگئی ہے یا پھر کسی ایسے اسکرپٹ پر
عمل ہو رہا ہے جس سے نواز شریف کی لندن واپسی میں آسانی پیدا ہو سکے، جہاں وہ عدالت سے اجازت ملنے کے بعد چند ماہ کیلئے اپنے علاج کیلئے گئے تھے لیکن اس کے بعد سے واپس نہیں آئے۔ ان ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی براہِ راست رابطہ نہیں۔ نون لیگ کی دوسری سطح کی قیادت بھی لا علم ہے کہ نواز شریف کیا سوچ رہے ہیں اور آیا وہ اُن لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جو ان کی واپسی کے حوالے سے اہم ہیں۔ نون لیگ کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے لندن میں نواز شریف سے ملاقات کے بعد جاری کیے جانے والے بیانات کی وجہ سے کئی لوگ حیران ہوگئے تھے اور نواز شریف کے معاملے میں سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا تھا۔ ایاز صادق نے کہا تھا کہ نواز شریف پاکستان آ رہے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہونے والا ہے لیکن میرے خیال میں جلد کوئی بڑا دھماکا ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب اچانک ہوگا اور آپ لوگوں کو یہ معاملات آہستہ آہستہ ہوتے نظر نہیں آئیں گے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ نواز شریف ملاقات کر رہے ہیں اور لندن میں غیر سیاسی شخصیات سے رابطے کر رہے ہیں تو انہوں نے ان ملاقاتوں کی تصدیق کی لیکن ایجنڈا اور ملاقاتوں میں زیر بحث معاملات کے حوالے سے لاعلمی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جی ہاں وہ لوگ نواز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں کیونکہ انہیں احساس ہوگیا ہے کہ پی ٹی آئی کو اقتدار میں لا کر انہیں ناکامی ہوئی
ہے اور وہ حکومت سے اپنے سپورٹ بھی واپس لے چکے ہیں اور نواز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں، کیونکہ نون لیگ کے پاس اپنا ووٹ بینک برقرار ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک اہم عسکری ذریعے نے آصف زرداری کے خصوصی حوالے سے ڈیل کے سوال پر اس نمائندے کو بتایا تھا کہ آصف زرداری کو چاہئے کہ وہ اُس شخص کا نام بتائیں جس نے ان سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ملاقات کرکے
مستقبل کے سیٹ اپ کے حوالے سے مدد مانگی ہے۔ ذریعے نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ آئے دن ایسے بیانات دیے جاتے ہیں اور (اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ) ڈیل کے اشارے دیے جاتے ہیں، یہ صورتحال افسوس ناک اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ زرداری کے معاملے کی طرف ایاز صادق کے بیانات نے بھی بڑے پیمانے پر افواہیں گرم کر دی تھیں کہ نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ’’ڈیل‘‘ ہوگئی ہے۔
تاہم، کسی بھی فریق کی جانب سے اب تک ایسی کوئی تصدیق نہیں ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایاز صادق کے بیان کو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے بالواسطہ توثیق حاصل ہو گئی ہے۔ عمران خان کے حوالے سے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ایسی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں جن سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلیت ختم کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ وزیراعظم نے
مزید کہا تھا کہ اگر مجرموں کو چھوڑا جانے لگا تو تمام جیلوں کے دروازے کھول دینا چاہئیں۔ وزیر اطلاعات نے واضح نہیں کیا کہ وزیراعظم کی نظر میں وہ کون ہے جو ایسی راہیں تلاش کر رہا ہے جس سے نواز شریف کی نا اہلیت ختم کی جا سکتی ہے۔ اسی دوران، نون لیگ کے ایک با خبر ذریعے نے رابطہ کرنے پر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ ایاز صادق نے کس بنیاد پر ’’انکشافات‘‘ کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بالواسطہ روابط ہیں جن سے کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آتی یا یہ معلوم نہیں ہوتا کہ نواز شریف کیا چاہتے ہیں۔