پیر‬‮ ، 21 جولائی‬‮ 2025 

ملاعمرنے پرویزمشرف کے مطالبے پرانکارکرکے درست فیصلہ کیایاغلط ؟

datetime 1  اگست‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی (نیوزڈیسک)ملاعمرنے پرویزمشرف کے مطالبے پرانکارکرکے درست فیصلہ کیایاغلط ؟ طالبان رہنماء ملا محمد عمر اگر القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن اور بامیان کے حوالے سے سیاسی فیصلہ کرلیتے اور پاکستان کی سنتے تو بات کہیں زیادہ مختلف ہوتی۔ سانحہ نائن الیون، ملا محمد عمر کی موت (چاہے 2013ءیا حال ہی میں ہوئی ہو) اور 2011ء میں اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ایک دور کا خاتمہ ہوگیا۔ اب بدلتے ہوئےمعروف تجزیہ نگارمظہرعباس کی رپورٹ کے مطابق عالمی منظرنامے میں ملا محمد عمر کے جانشین کس قدر مختلف ہوں گے؟ ایک رہنماء کی حیثیت سے تاریخ ملا عمر کو کیا مقام دے گی؟ جنہوں نے امریکی فورسز کی سخت مزاحمت کی یا وہ افغانوں کو ایک اور جنگ کی جانب لے گئے جس سے بچا جا سکتا تھا۔ افغان ان کو کیسے یاد رکھیں گے؟ جنہوں نے طالبان کے دور حکمرانی میں پرامن افغانستان دیا یا انہوں نے معاشرے کو مزید کچل ڈالا۔ ہر ایک کو اپنی رائے قائم کرنے کا حق ہے۔ انہوں نے زیادہ تر افغانستان کے پہاڑوں اور بعض اوقات پاکستان میں خفیہ زندگی گزاری، ان کی موت بھی ایک راز اور پراسرار ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمود احمد سانحہ نائن الیون کے ہفتوں بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کا پیغام لے کر گئے کہ اُسامہ بن لادن کو حوالے نہ کئے جانے کی صورت میں امریکا افغانستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس وقت دو آپشنز سامنے تھے، اوّل اسامہ کو حوالے کر دیا جائے، دوم انہیں افغانستان چھوڑ دینے کے لئے کہا جائے، جس پر ملا محمد عمر نے جوابی تجاویز دیں کہ امریکا اُسامہ بن لادن کے خلاف ثبوت مہیا کرے، ان پر اسلامی قوانین کے مطابق افغانستان ہی میں مقدمہ چلایا جائے گا جبکہ وہ کسی بھی مسلم ملک میں بھی مقدمہ چلائے جانے پر تیار تھے۔ جنرل محمود کے ساتھ جو لوگ گئے، ان میں معروف اسلامی اسکالرز مفتی نظام الدین شامزئی مرحوم اور مفتی جمیل شامل تھے۔ جنرل محمود کی رپورٹ نے پرویز مشرف کو مایوس کیا اور افغانستان پر حملہ یقینی ہوگیا۔ یہ بھی قیاس آرائیاں رہیں کہ جنرل محمود نے پرویز مشرف کا پیغام پہنچایا ہی نہیں بلکہ ملا عمر کے مؤقف کی حمایت کی۔ تاہم پرویز مشرف اکثر ان الزامات کی تردید کرتے ہیں، گوکہ ان کے جنرل محمود سے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل محمود نے اس حوالے سے کوئی بات کی اور نہ ہی انٹرویو دیا اور نہ ہی پرویز مشرف نے کبھی اپنے سابق ساتھی کے خلاف کوئی بات کی۔ مذاکرات میں ناکامی افغانستان پر امریکی اور نیٹو حملے کی صورت میں نکلی اور حتیٰ کہ 14 سال گزر جانے کے بعد بھی جنگ ختم نہیں ہوئی اور پاکستان کو ایک بار پھر سے بھاری قیمت چکانی پڑی۔ تاہم سوویت یونین کے خلاف ’’جہاد افغانستان‘‘ کے برخلاف ملا محمد عمر کو امریکا کے خلاف تنہا ہی جنگ لڑنی پڑی، افغان طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھنے کی وجہ سے پاکستان جنگ میں شامل نہیں ہوا لیکن اس کا قبائلی علاقہ خصوصاً شمالی وزیرستان القاعدہ سمیت غیرملکی عسکریت پسندوں اور افغانستان سے فرار ہو کر آنے والے طالبان کی پناہ گاہ بن گیا۔ ملا محمد عمر کے حامیوں کے لئے طالبان کے تحت افغانستان میں افیون کی کاشت اور جرائم کی شرح صفر ہوگئی تھی جبکہ ناقدین کا مؤقف ہے کہ ملا عمر کے دُرشت اور سخت گیر روّیہ کا خمیازہ افغانستان کو بھگتنا پڑا۔ افغانستان جنگ کے نتیجے میں پاکستان میں بھی طالبان نے زور پکڑا اور درجن بھر سے زائد گروپوں کو بعدازاں کالعدم قرار دیا گیا۔ افغان صوبے بامیان میں صدیوں قدیم اور تاریخی بدھ مجسموں کو جاپان، نیپال اور دیگر ممالک کی درخواست کے باوجود تباہ کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے طالبان نہ صرف تنہا ہوئے بلکہ ان پر بین الاقوامی دبائو بھی بڑھ گیا۔ سوویت یونین کے نکل جانے کے بعد افغانستان بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوا۔ اب ملا عمر کے بعد طالبان کے مستقبل پر سنگین سوالات اُٹھ رہے ہیں، جیسا اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کے ساتھ ہوا۔ نائن الیون سے قبل امریکا نے طالبان کو کبھی القاعدہ، حزب اللہ یا حماس کی فہرست میں کبھی نہیں رکھا، لیکن انسانی حقوق، آزادی اظہار اور خواتین کی تعلیم پر پابندیوں کے حوالے سے تنقید کی جاتی رہی۔ حتیٰ کہ اعلیٰ امریکی حکام کئی بار اعتراف کر چکے کہ ملا محمد عمر کے دور میں افیون کی کاشت صفر ہوگئی اور طالبان کو چھوڑ کر باقی تمام کو غیرمسلح کر دیا گیا تھا۔ ان کی افغانستان میں انجینئر گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی سمیت مختلف دھڑوں سے اختلافات نمٹانے میں ناکامی نے جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کو بھی ناخوش کر دیا تھا۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد جنہوں نے مختلف افغان دھڑوں کو ایک چھتری تلے لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ ملا عمر کے مؤقف میں کچھ لچک ہوتی تو نائن الیون سے قبل اور اس کے بعد افغان دھڑوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جا سکتا تھا۔ دیگر کی طرح طالبان بھی افغان جہاد کی پیداوار ہیں۔ پاکستان نے امریکا کی حمایت سے افغان جہاد میں اہم کردار ادا کیا۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد کے بعد کی ملا محمد عمر اور اُسامہ بن لادن دو ممتاز شخصیات ہیں۔ انہوں نے ’’جہاد‘‘ اور نظریہ کی قیادت کی۔ سوویت یونین کے نکل جانے کے بعد نظریہ جہاد نے زور پکڑا، جسے امریکا کے خلاف جنگ کی بنیاد سمجھا گیا۔ایک دور کا خاتمہ
کراچی (تجزیہ : مظہر عباس) طالبان رہنماء ملا محمد عمر اگر القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن اور بامیان کے حوالے سے سیاسی فیصلہ کرلیتے اور پاکستان کی سنتے تو بات کہیں زیادہ مختلف ہوتی۔ سانحہ نائن الیون، ملا محمد عمر کی موت (چاہے 2013ءیا حال ہی میں ہوئی ہو) اور 2011ء میں اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ایک دور کا خاتمہ ہوگیا۔ اب بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے میں ملا محمد عمر کے جانشین کس قدر مختلف ہوں گے؟ ایک رہنماء کی حیثیت سے تاریخ ملا عمر کو کیا مقام دے گی؟ جنہوں نے امریکی فورسز کی سخت مزاحمت کی یا وہ افغانوں کو ایک اور جنگ کی جانب لے گئے جس سے بچا جا سکتا تھا۔ افغان ان کو کیسے یاد رکھیں گے؟ جنہوں نے طالبان کے دور حکمرانی میں پرامن افغانستان دیا یا انہوں نے معاشرے کو مزید کچل ڈالا۔ ہر ایک کو اپنی رائے قائم کرنے کا حق ہے۔ انہوں نے زیادہ تر افغانستان کے پہاڑوں اور بعض اوقات پاکستان میں خفیہ زندگی گزاری، ان کی موت بھی ایک راز اور پراسرار ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمود احمد سانحہ نائن الیون کے ہفتوں بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کا پیغام لے کر گئے کہ اُسامہ بن لادن کو حوالے نہ کئے جانے کی صورت میں امریکا افغانستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس وقت دو آپشنز سامنے تھے، اوّل اسامہ کو حوالے کر دیا جائے، دوم انہیں افغانستان چھوڑ دینے کے لئے کہا جائے، جس پر ملا محمد عمر نے جوابی تجاویز دیں کہ امریکا اُسامہ بن لادن کے خلاف ثبوت مہیا کرے، ان پر اسلامی قوانین کے مطابق افغانستان ہی میں مقدمہ چلایا جائے گا جبکہ وہ کسی بھی مسلم ملک میں بھی مقدمہ چلائے جانے پر تیار تھے۔ جنرل محمود کے ساتھ جو لوگ گئے، ان میں معروف اسلامی اسکالرز مفتی نظام الدین شامزئی مرحوم اور مفتی جمیل شامل تھے۔ جنرل محمود کی رپورٹ نے پرویز مشرف کو مایوس کیا اور افغانستان پر حملہ یقینی ہوگیا۔ یہ بھی قیاس آرائیاں رہیں کہ جنرل محمود نے پرویز مشرف کا پیغام پہنچایا ہی نہیں بلکہ ملا عمر کے مؤقف کی حمایت کی۔ تاہم پرویز مشرف اکثر ان الزامات کی تردید کرتے ہیں، گوکہ ان کے جنرل محمود سے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل محمود نے اس حوالے سے کوئی بات کی اور نہ ہی انٹرویو دیا اور نہ ہی پرویز مشرف نے کبھی اپنے سابق ساتھی کے خلاف کوئی بات کی۔ مذاکرات میں ناکامی افغانستان پر امریکی اور نیٹو حملے کی صورت میں نکلی اور حتیٰ کہ 14 سال گزر جانے کے بعد بھی جنگ ختم نہیں ہوئی اور پاکستان کو ایک بار پھر سے بھاری قیمت چکانی پڑی۔ تاہم سوویت یونین کے خلاف ’’جہاد افغانستان‘‘ کے برخلاف ملا محمد عمر کو امریکا کے خلاف تنہا ہی جنگ لڑنی پڑی، افغان طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھنے کی وجہ سے پاکستان جنگ میں شامل نہیں ہوا لیکن اس کا قبائلی علاقہ خصوصاً شمالی وزیرستان القاعدہ سمیت غیرملکی عسکریت پسندوں اور افغانستان سے فرار ہو کر آنے والے طالبان کی پناہ گاہ بن گیا۔ ملا محمد عمر کے حامیوں کے لئے طالبان کے تحت افغانستان میں افیون کی کاشت اور جرائم کی شرح صفر ہوگئی تھی جبکہ ناقدین کا مؤقف ہے کہ ملا عمر کے دُرشت اور سخت گیر روّیہ کا خمیازہ افغانستان کو بھگتنا پڑا۔ افغانستان جنگ کے نتیجے میں پاکستان میں بھی طالبان نے زور پکڑا اور درجن بھر سے زائد گروپوں کو بعدازاں کالعدم قرار دیا گیا۔ افغان صوبے بامیان میں صدیوں قدیم اور تاریخی بدھ مجسموں کو جاپان، نیپال اور دیگر ممالک کی درخواست کے باوجود تباہ کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے طالبان نہ صرف تنہا ہوئے بلکہ ان پر بین الاقوامی دبائو بھی بڑھ گیا۔ سوویت یونین کے نکل جانے کے بعد افغانستان بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوا۔ اب ملا عمر کے بعد طالبان کے مستقبل پر سنگین سوالات اُٹھ رہے ہیں، جیسا اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کے ساتھ ہوا۔ نائن الیون سے قبل امریکا نے طالبان کو کبھی القاعدہ، حزب اللہ یا حماس کی فہرست میں کبھی نہیں رکھا، لیکن انسانی حقوق، آزادی اظہار اور خواتین کی تعلیم پر پابندیوں کے حوالے سے تنقید کی جاتی رہی۔ حتیٰ کہ اعلیٰ امریکی حکام کئی بار اعتراف کر چکے کہ ملا محمد عمر کے دور میں افیون کی کاشت صفر ہوگئی اور طالبان کو چھوڑ کر باقی تمام کو غیرمسلح کر دیا گیا تھا۔ ان کی افغانستان میں انجینئر گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی سمیت مختلف دھڑوں سے اختلافات نمٹانے میں ناکامی نے جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کو بھی ناخوش کر دیا تھا۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد جنہوں نے مختلف افغان دھڑوں کو ایک چھتری تلے لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ ملا عمر کے مؤقف میں کچھ لچک ہوتی تو نائن الیون سے قبل اور اس کے بعد افغان دھڑوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جا سکتا تھا۔ دیگر کی طرح طالبان بھی افغان جہاد کی پیداوار ہیں۔ پاکستان نے امریکا کی حمایت سے افغان جہاد میں اہم کردار ادا کیا۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد کے بعد کی ملا محمد عمر اور اُسامہ بن لادن دو ممتاز شخصیات ہیں۔ انہوں نے ’’جہاد‘‘ اور نظریہ کی قیادت کی۔ سوویت یونین کے نکل جانے کے بعد نظریہ جہاد نے زور پکڑا، جسے امریکا کے خلاف جنگ کی بنیاد سمجھا گیا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



نیند کا ثواب


’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…