اسلام آباد (این این آئی)سابق وزیر داخلہ اور چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ریفارمز سینیٹر رحمان ملک نے کہا ہے کہ کرکٹ کو ایک کھیل سمجھنا چاہیے اور ہر چیز کو حکومت پانے اور قوم کے اعصاب پر سوار نہیں سوار کرنا چاہیے، نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان منسوخ ہونے سے ہر ایک کو دکھ ہے لیکن ایسے معاملات کو جذباتی ہونے کی بجائے دانشمندی سے دیکھا جانا چاہیے
تاکہ نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے، دوسروں پر الزام لگانے کے بجائے ہمیں اپنے سیکورٹی سسٹم میں موجود خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔اپنے بیان میں رحمان ملک نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت پہلے دن سے پاکستان کے خلاف مختلف سازشیں کر رہا ہے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارتی ہائبرڈ جنگوں کے خلاف ہماری جوابی حکمت عملی کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم پر حملے کا الرٹ ایک دہشت گرد احسان اللہ احسان نے جاری کیا تھا جس کے خلاف پاکستان نے دو ایف آئی آر درج کی تھیں اور وہ اب ترکی میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ احسان اللہ احسان کے بہت سے آقا ہیں جو اسے پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔انہوں نے حکومت سے کہا کہ وہ وضاحت کرے کہ دہشت گرد کی جانب سے جاری کردہ الرٹ کی تصدیق کیوں نہیں کی گئی اور اسے خفیہ کیوں نہیں رکھا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں پولیس سے کئی وائرلیس سیٹ چوری ہو چکے ہیں جنہیں دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر استعمال کر رہے ہیں اور وہ پولیس کی گفتگو سنتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ احسان اللہ احسان نے ایک ویڈیو دوبارہ جاری کی ہے جس میں وہ اعتراف کرتا ہے کہ اس نے الرٹ جاری کیا تھا، اب جب اس نے جرم کا اعتراف کر لیا ہے
اور حکومت کے پاس بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت ہیں تو حکومت اقوام متحدہ اور انٹرپول بھارت اور احسان اللہ احسان کے خلاف کیوں نہیں جاتی؟ رحمان ملک نے حکومت پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر یہ مسئلہ اقوام متحدہ اور انٹرپول کے ساتھ اٹھائے کہ بھارت دہشت گردوں کے ذریعے امن کو سبوتاڑ کرنا چاہتا ہے اور انہیں
پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی مطالبہ کرتا ہوں کہ احسان اللہ احسان کو گرفتار کرنے کے لیے حکومت کو اقوام متحدہ اور انٹر پولْ کے ذریعے ترکی پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آنے والے غیر ملکی ٹیموں کی سکیورٹی کے لیے ایک الگ ایلیٹ فورس بنائی جائے۔سابق وزیر داخلہ نے
کہا کہ انہوں نے بہت پہلے کہا تھا کہ ہمارا انفارمیشن ٹیکنالوجی کا نظام غیر محفوظ ہے اور بھارت ہر روز پاکستان میں 3 ہزار سے زائد ویب سائٹس ہیک کرتا ہے کیونکہ اس نے ہمارے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کو ہیک کیا تھا اور اہم قومی ڈیٹا چوری کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ابھی تک ایک مضبوط فائر وال نہیں بنایا ہے اور پی ٹی اے
کو ہنگامی بنیادوں پر ایک مضبوط فائر وال بنانا چاہیے اور سائبر سیکورٹی کو یقینی بنانا چاہیے۔ایک سوال کے جواب میں رحمان ملک نے کہا کہ اب تک موجودہ حکومت کوئی ایسی پالیسی نہیں لا سکی جو قابل ذکر اور قابل تحسین ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیش گوئی کرنا بدقسمتی ہے کہ ڈالر کی قیمت 180 اور پھر 200 روپے تک جائے
گی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کے دور میں جب روپے کی قدر گر گئی تو صدر آصف علی زرداری نے انہیں کنٹرول کرنے کا ٹاسک دیا اور دن رات کی کوششوں کے بعد روپے کی قدر کو 48 گھنٹوں کے اندر کنٹرول کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ ایک مافیا روپے کی قدر میں کمی میں ملوث ہے ، بشمول اسٹیٹ بینک کے
افسران اور اگر حکومت چاہے تو روپے کو مزید گرنے سے روک سکتی ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں رحمان ملک نے کہا کہ ہمارے بیشتر قوانین کمزور ہیں اور اگر کوئی قانون ہے بھی تو اس پر عملدرآمد کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہا کہ جعلی خبر چلانا جرم ہے لیکن حکومت کو کوئی ایسی میڈیا پالیسی متعارف نہیں کرنی چاہیے جس سے
آزادی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی متاثر ہو۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان پہلے ہی آزادی اظہار کے لیے سرخ فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سی پیک آصف علی زرداری کی ذہن سازی ہے اور آج جس طرح سے یہ ترقی کر رہا ہے اسے دشمن اور مغرب کے کئی ممالک برداشت نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک
چین دوستی مزید مضبوط ہوگی ، دونوں ممالک کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا بلکہ یہ صرف بھارت کا پروپیگنڈا تھا کیونکہ سی پیک منصوبہ پاکستان کی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔افغانستان کے معاملے پر رحمان ملک نے کہا کہ عالمی برادری کو طالبان کو دیوار سے نہیں لگانا چاہیے بلکہ ان کی حکومت کو قبول کرنا چاہیے اور انہیں بین الاقوامی دھارے میں لانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر طالبان کی حکومت کو قبول نہیں کیا گیا تو افغانستان کے
حالات مزید خراب ہو جائیں گے اور پورا ملک دہشت گردوں کا گڑھ بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں وہ طالبان میں دھڑے بندی کو دیکھتے ہیں جو کہ پورے خطے کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان میں ہزاروں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں جن میں ٹی ٹی پی ، داعش اور جہادی عناصر شام سے واپس آئے ہیں اور انہیں پاکستان اور چین کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ایک سوال کے جواب میں رحمان ملک نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی مشکلات کم نہیں ہوئیں ، ہماری قیادت کو اب بھی مقدمات سامنا ہے۔