جمعرات‬‮ ، 03 جولائی‬‮ 2025 

افغانستان میں طالبان چین کی سرحد تک پہنچ گئے امریکی اخبار کا تہلکہ خیز دعویٰ

datetime 11  جولائی  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کابل(این این آئی )افغانستان کے ایک تہائی حصے پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد رواں ہفتے طالبان تحریک کے عناصر شمال مشرقی صوبے بدخشاں تک پہنچ گئے ۔یہ پہاڑی علاقہ چین کے صوبے شنکیانگ کے ساتھ سرحد پر واقع ہے۔ یہ بات امریکی اخبار نے بتائی ۔شنکیانگ صوبے میں القاعدہ تنظیم سے مربوط مسلح اویغور جماعتوں کے ساتھ طالبان کے تاریخی تعلقات کے پیش نظر حالیہ

پیش رفت ماضی میں بیجنگ کے لیے باعث تشویش ہو سکتی تھی۔ تاہم ان اب افغان طالبان چین کے اندیشوں کو اطمینان میں بدلنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔بیجنگ کی ایک یونیورسٹی میں نیشنل اسٹریٹجک انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ تحقیق کے سربراہ چیان ونگ کے مطابق افغان طالبان چین کے لیے حسنِ نیت کا اظہار چاہتے ہیں۔ طالبان امید رکھتے ہیں کہ بالخصوص امریکی افواج کے انخلا کے بعد چین زیادہ اہم کردار ادا کرے گا۔طالبان تحریک اس وقت دو مواقف میں اچھا توازن یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ ایک طرف عالمی اسلامی معاملات کی پاسداری ہے اور دوسری طرف بیجنگ کو قائل کرنا ہے کہ کابل میں طالبان حکومت چین کے استحکام کے لیے خطرہ نہیں بنے گی۔طالبان تحریک کے ایک اعلی ذمے دار کا کہنا تھاکہ “ہمیں مسلمانوں پر جبر کے معاملے میں دل چسپی ہے اور ہم اس پر توجہ دیتے ہیں خواہ فلسطین ہو ، میانمار ہو یا پھر چین ہم دنیا میں کسی بھی جگہ غیر مسلموں پر جبر کے لیے بھی فکر رکھتے ہیں، البتہ ہم چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہر گز نہیں کریں گے۔

افغان طالبان کے اویغور کے مسلح عناصر کے ساتھ تعلقات اس زمانے سے ہیں جب اسامہ  افغانستان میں سکونت پذیر تھے۔متعدد ایوغور جنگجو حالیہ برسوں میں شام منتقل ہوئے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا کہ اویغور کے تقریبا 500 مسلح ارکان ابھی تک افغانستان میں ہیں۔چین نے شدت پسند جماعتوں مثلا ترکستانی اسلامک پارٹی جیسی تنظیموں کی

موجودگی کو شنکیانگ صوبے میں اپنے کریک ڈان کا جواز بنایا۔ اس دوران میں دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پیشہ وارانہ تربیت کے کیمپوں کے نام سے معروف مقامات پر قید میں رکھا گیا۔بدخشاں کے صدر مقام کے سوا صوبے کے بقیہ تمام علاقے اس وقت افغان طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ حالیہ دنوں میں 1000 سے زیادہ افغان سرکاری فوجی فرار ہو کر سرحد پار تاجکستان میں داخل ہو گئے۔

اگرچہ بیجنگ کابل میں افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کو سپورٹ کرتا ہے۔ اس نے متعدد بار طالبان کے وفود کا استقبال بھی کیا۔ رواں سال چین نے افغانوں کے درمیان امن بات چیت کی میزبانی کی پیش کش بھی کی تھی۔چین کی ریاستی سلامتی کی وزارت کے زیر انتظام ایک تحقیقی مرکز کے محقق لی وی ے کے مطابق طالبان کا خیال ہے کہ وہ ایک بار پھر معاملات کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں۔ لہذا وہ پڑوسی ممالک کے ساتھ زیادہ دوستانہ تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ مزید یہ کہ طالبان افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے زرخیز سرزمین کے طور پر دیکھنے کے خواہاں نہیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



وائے می ناٹ


میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…