لاہور (نیوزڈیسک) سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اگر عدالت کے سامنے کسی سطح پر وزیر اعلیٰ کی طرف سے سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ سے متعلق کوئی معاملہ زیر سماعت آیا تو عدالت اراضی الاٹمنٹ کا ایسا اختیار ختم کر دے گی، امریکی صدر اوبامہ کے پاس کسی شہری کو ایک کھوکھا الاٹ کرنے کا اختیار نہیں مگر پنجاب میں شہریوں کو قیمتی سرکاری اراضی ایسے ہی الاٹ کر دی جاتی ہے۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ساہیوال کے رہائشی محمد صدیق کی نظرثانی کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے 2004ءمیں ایک نوٹیفکیشن کے ذرریعے شہریوں کو 223ایکڑ سرکاری اراضی الاٹ کی جو بعد میںمحکمہ مال نے سرکاری ہاﺅسنگ سکیم بنانے کی خاطر واپس لے لی مگر رہائشیوں کو متبادل اراضی الاٹ نہیں کی گئی، محکمہ مال کیخلاف ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا مگر عدالت عظمیٰ نے رہائشیوں کی اپیلیں خارج کر دیں۔انہوں نے کہا کہ محکمہ مال کو وزیراعلیٰ کی الاٹ کردہ اراضی واپس لینے کا اختیار نہیں لہٰذاسپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور رہائشیوں کو متبادل اراضی الاٹ کرنے اور ملکیتی حقوق دینے کا حکم دیا جائے۔جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر اوبامہ کو ابھی اختیار نہیں کہ وہ ایک کھوکھا بھی کسی شہری کو الاٹ کریں مگر پنجاب میں شہریوں کو سرکاری اراضی ایسے ہی الاٹ کر دی جاتی ہے۔سپریم کورٹ سامنے کسی سطح پر وزیر اعلیٰ کے سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ کے اختیارات سے متعلق کوئی سامنے آیا تو عدالت ان اختیارات کو ختم کرنے کا اصول طے کر ے گی۔ عدالت نے نظرثانی کی غیرضروری درخواست دائر کرنے پر درخواست گزار کو 10ہزار جرمانہ کرتے ہوئے درخواست خارج کر دی۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں