اسلام آباد (نیوزڈیسک) وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی وخارجہ امور سرتاج عزیز نے دس جولائی کو پاکستان کی سفارتی تاریخ کانہایت اہم دن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس روز شنگھائی تعاون تنظیم نے پاکستان کو متفقہ طور پر مکمل رکنیت دینے کا فیصلہ کیا ، وزیراعظم نواز شریف نے سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کیس پر ہونیوالی پیشرفت کے حوالے سے بھی بھارت سے معلومات مانگی ہیں ،تین بڑے ممالک کے سربراہوں سے وزیراعظم پاکستان کی ملاقاتیں ہوئیں،بھارتی وزیراعظم سے نواز شریف کی ملاقات کسی مذاکراتی عمل کا باضابطہ آغاز نہیں تھی، مسائل کے حل کیلئے بات چیت کی غرض سے مفاہمت کے حصول کا موقع میسر آیا۔ مشترکہ اعلامیہ میں تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کا ذکر ہے جن میں کشمیر سرفہرست ہے، جنوبی ایشیاءکے عوام امن کے خواہاں ہیں ،وزیراعظم کی روسی صدر ولادے میر پیوٹن سے ہونیوالی ملاقات میں تجارت، سرمایہ کاری اور دفاع کے شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیاگیا، پاک افغان قیادت نے پاکستان میں افغان حکومت اور افغان طالبان کے وفود کی سات جولائی کو ہونیوالی ملاقات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا جس کا مقصد افغانستان میں مفاہمت کا فروغ تھا۔چینی صدر سے ملاقات میں ان کے دورہ پاکستان کے دوران ہوئے فیصلوں پر عملدرآمد کا جائزہ لیا گیا،فی الوقت داعش بڑا مسئلہ نہیں ، مستقبل میں ہوسکتی ہے،پاکستان ، افغانستان کو تعاون کرنا ہوگا۔وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی وخارجہ امور سرتاج عزیز نے پیر کو دفتر خارجہ میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ دس جولائی 2015ءکا دن پاکستان کی سفارتی تاریخ کا نہایت اہم دن تھا ، شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) نے متفقہ طور پر پاکستان کو رکنیت دینے کا فیصلہ کیا اس حوالے سے کارروائی شروع ہوچکی ہے اور ضروری امور مکمل ہونے کے بعد پاکستان ایس سی او کا مکمل رکن بن جائیگا، یہ تنظیم خطے کے ماحول کو سازگار بنانے کیلئے اہم کردار ادا کرسکتی ہے جس سے اس کے تمام رکن ممالک میں امن اور خوشحالی آئیگی، انہوں نے کہا کہ دس جولائی کو ایک اور بڑی پیشرفت وزیراعظم کی روسی صدر ولادے میر پیوٹن سے ہونیوالی ملاقات تھی، دونوں رہنماﺅں نے تمام شعبوں بالخصوص تجارت، سرمایہ کاری اور دفاع کے شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا ، ملاقات میں متعدد فیصلے کئے گئے جن پر پیشرفت ہو رہی ہے، مشیر خارجہ نے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف کی اسی روز چین کے صدر ژی جن پنگ سے ہونیوالی ملاقات سے بھی اعلی ترین سطح پر چینی صدر کے اپریل میں دورہ پاکستان کے دوران ہونیوالے فیصلوں پرعملدرآمد کی پیشرفت کا جائزہ لینے کا موقع میسر آیاجس میں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سمیت دونوں ممالک کے درمیان کثیر جہتی تعاون کے دیگر امور شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین دوستی کے گہرے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں اور وہ ہر اچھے، برے وقت کے سٹرٹیجک شراکت دار ہیں، سرتاج عزیز نے کہا کہ اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف کی افغان صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات ہوئی جس میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ہونیوالی پیشرفت کی رفتار کو برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا، دونوں رہنماﺅں نے پاکستان میں افغان حکومت اور افغان طالبان کے وفود کی سات جولائی کو ہونیوالی ملاقات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا جس کا مقصد افغانستان میں مفاہمت کا فروغ تھا، پاکستان نے ان مذاکرات کی میزبانی کی اور وہ امن اور مفاہمت کے عمل کی حمایت جاری رکھے گا جو پاکستان کے اس موقف پر مبنی ہے کہ ایک پرامن اور خوشحال افغانستان ہمارے خطے کے بہترین مفاد میں ہے، مشیر خارجہ نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کی بھارتی ہم منصب نریندر مودی کی ملاقات بھارت کی درخواست پر دوستانہ ماحول میں ہوئی ، بھارتی وزیراعظم نے وزیراعظم نواز شریف کے پرامن اور اچھے ہمسائیگی کے تعلقات کے ویژن کی حمایت کی جو کہ دونوں ممالک اپنے عوام کی معاشی بہبود پر توجہ مرکوز کرنے کیلئے ماحول فراہم کرنے کی غرض سے اہم ہے، انہوں نے کہا کہ دس جولائی کو ہونیوالی ملاقات کے نتیجے میں ہمیں اپنا ایک بڑا ہدف حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی جو کہ کشیدگی کم کرنا اور دونوں ممالک کیلئے اہمیت کے حامل تمام امور کو بامقصد مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کیلئے ماحول پیدا کرنا تھا، انہوں نے کہاکہ ہمارے ملک اور ہمارے خطے کو متعدد چیلنجز درپیش ہیں جن میں کشمیر کے تصفیہ طلب مسئلے سے لیکر دہشت گردی اور غربت اور کم شرح کی انسانی ترقی جیسے مسائل شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیاءکے عوام امن کے خواہاں ہیں تاکہ ان کی حکومتیں سماجی، اقتصادی ایجنڈا پر توجہ مرکوز کرسکیں اور اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیاءمیں رہنے والے کئی ملین لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوسکے، سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم سے نواز شریف کی دس جولائی کو ہونیوالی ملاقات کسی مذاکراتی عمل کا باضابطہ آغاز نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ سے دونوں ہمسائیہ ممالک کو اس مفاہمت کے حصول میں مدد ملی ہے کہ کشیدگی اور مخالفت ہر حال میں کم کی جانی چاہئے تاکہ دوطرفہ اور علاقائی اہمیت کے تمام تصفیہ طلب مسائل کےلئے بات چیت کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے جاری کئے گئے مشترکہ بیان میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان پر یہ اجتماعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امن کو یقینی بنائیں اور ترقی کو فروغ دیں اور ایسا کرنے کیلئے وہ تمام تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت کیلئے آمادہ ہیں، مشیر خارجہ نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ تصفیہ طلب مسائل کونسے ہیں بلاشبہ کشمیر تصفیہ طلب مسائل میں سرفہرست ہے لیکن اس کے علاوہ دیگر اہم مسائل بھی شامل ہیں جن میں سیاچن ، سرکریک مداخلت اور پانی کے مسائل شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ کشمیری تین دہائیوں سے مسائل کا شکار ہیں ان کو حق خود ارادیت کی اجازت نہیں دی گئی ، پاکستان کشمیریوں کی منصفانہ جدوجہد میں ان کےساتھ کھڑا رہا ہے، وزیراعظم نواز شریف نے اس حوالے سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران پاکستان کے اصولی موقف کا نہایت واضح اور غیر متزلزل انداز میں اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دس جولائی کی ملاقات سے ایسے امور کی نشاندہی ہوئی جن پر دونوں ممالک پیشرفت کرسکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باﺅنڈری پر امن دونوں ممالک کے مفاد میں ہے،اگرچہ حالیہ دنوں میں سیز فائر پر عملدرآمد ہو رہا ہے لیکن ایسے مواقع بھی آئے جب سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی اور اس سے انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور لوگ زخمی ہوئے، سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے اتفاق کیا ہے کہ ڈی جی رینجرز اور ڈی جی بارڈر سیکیورٹی فورسز کے علاوہ ڈی جی ایم اوز کی سطح پر ہونیوالی باقاعدہ میٹنگز کے میکانزم کو قائم رکھا جانا چاہئے اور 2003ءمیں سیز فائر کے حوالے سے ہونیوالی مفاہمت پر پوری طرح عملدرآمد یقینی بنایا جانا چاہئے، انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک نے ٹریک ٹو مذاکرات پر بھی اتفاق کیاہے تاکہ دیرینہ تنازعات کے حل کے طریقے تلاش کئے جاسکیں اس حوالے سے تفصیلات اور طریقہ کار سفارتی چینلز پر طے کیا جائیگا۔ انہوں نے بتایا کہ بات چیت کے دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے موقف کو سنا پاکستان کو نہ صرف بھارتی وزراءکے مخالفانہ بیانات بلکہ پاکستان میں بھارتی مداخلت پر بھی تشویش ہے جن میں بلوچستان میں شورش کی حمایت بھی شامل ہے، انہوں نے کہا کہ دوسری جانب بھارت سرحد پار دہشت گردی کے روایتی الزامات دوہراتا رہا ہے اور اس نے پاکستان کی جانب سے انسداد دہشت گردی کیلئے گزشتہ دو سال کے دوران کئے جانیوالے اقدامات سے صرف نظر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے ان معاملات کے حل کیلئے اتفاق کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر پہلے نئی دہلی اور پھر اسلام آباد میں ملاقات کرینگے، انہوں نے کہا کہ پاک بھارت وزرائے اعظم نے اتفاق کیا ہے کہ مذہبی سیاحت کے فروغ کیلئے تعاون سے زائرین کو درپیش مشکلات کم کرنے میں مدد ملے گی جبکہ ماہی گیروں کی جلد رہائی کا اقدام انسانی جذبے کے تحت کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ ممبئی حملہ کیس کے حوالے سے ہمارا پہلے بھی یہی موقف تھا اور اجلاس کے دوران بھی یہی موقف رہا کہ ہمیں اس کیس کی عدالتی کارروائی جلد مکمل کرنے کیلئے مزید ثبوت اور معلومات درکار ہیں جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کیس پر ہونیوالی پیشرفت کے حوالے سے بھی بھارت سے معلومات مانگی ہیں جبکہ دوطرفہ تجارت کا معاملہ بھی زیر غور آیا، انہوں نے کہا کہ ان تمام امور کو اب مختلف چینلز پر آگے بڑھایا جائیگا۔ مشیر خارجہ نے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم کی ملاقات کے دوران پاکستان کی جانب سے کوئی معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپنایا گیا ، انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے مشیر قومی سلامتی ملاقات کرینگے تو پھر یہ بات سامنے آئیگی کہ اس معاملے پر کس حد تک آگے بڑھا جاسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ مشترکہ بیان میں تمام تصفیہ طلب امور حل کرنے کا واضح طور پر ذکر ہے جن میں کشمیر بھی شامل ہے ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ فی الوقت داعش بڑا مسئلہ نہیں ہے تاہم پاکستان اور افغانستان کو اس حوالے سے تعاون کرنا ہوگا مستقبل میں یہ ایک مسئلہ ہوسکتاہے اور ہمیں اس کے انسداد کیلئے تیار رہناچاہئے، ایک اور سوال پر سرتاج عزیز نے بتایا کہ پاک بھارت مشترکہ اعلامیہ میں بھارت کی کئی چیزیں بھی شامل نہیں صرف بیانات میں ذکر کرنے سے مسئلے حل نہیں ہوتے، اس کیلئے بات چیت کی جاتی ہے۔ایک اور سوال پر انہوں نے بتایا کہ بھارت کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔