اسلام آباد (نیوز ڈیسک )سائنس دان اب اس راز کے قریب پہنچ گئے ہیں کہ آخر عمر بڑھنے کے ساتھ ہمیں کیوں محسوس ہوتا ہے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔جرنل کمیونیکیشنز بائیولوجی میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیق میں ماہرین نے ایک پرانے الفریڈ ہچکاک شو کے مناظر دیکھنے والے افراد کے دماغی اسکینز کا مطالعہ کیا، تاکہ اس معمے کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔تحقیق کے لیے کیمبرج سینٹر فار ایجنگ اینڈ نیورو سائنس کے ڈیٹا کا استعمال کیا گیا، جو طویل عرصے سے انسانی دماغ کی عمر اور اس کی فعالیت پر تحقیق کر رہا ہے۔مجموعی طور پر 577 افراد نے اس تجربے میں حصہ لیا، جنہیں 8 منٹ کی ایک مخصوص قسط دکھائی گئی۔ اس دوران ان کے فنکشنل ایم آر آئی اسکینز لیے گئے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ قسط کے دوران دماغ میں کس نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
اس قسط کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ اسے دیکھنے کے دوران زیادہ تر لوگوں میں دماغی سرگرمیوں کا ایک منفرد پیٹرن سامنے آتا ہے، جس میں دماغ واقعات کو تقسیم کر کے مختلف زاویوں سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔اس مطالعے میں 18 سے 88 سال کی عمر کے افراد شامل تھے، اور ان کے اسکینز کا تجزیہ ایک جدید کمپیوٹر الگورتھم کے ذریعے کیا گیا۔نتائج سے پتا چلا کہ نوجوان شرکاء کے مقابلے میں معمر افراد کے دماغ میں نئی سرگرمیوں کا تناسب کم رہا، جس سے یہ نظریہ تقویت پکڑتا ہے کہ عمر کے ساتھ دماغی فعالیت میں کمی وقت کے تیزی سے گزرنے کے احساس کا باعث بن سکتی ہے۔محققین کے مطابق، جب دماغ کسی خاص عرصے میں کم نئے تجربات ریکارڈ کرتا ہے تو وقت مختصر محسوس ہونے لگتا ہے۔ اسی لیے درمیانی یا بڑھاپے کی عمر میں جب روزمرہ معمولات یکساں رہتے ہیں تو افراد کو لگتا ہے کہ دن، ہفتے اور مہینے تیزی سے گزر رہے ہیں۔ماہرین نے واضح کیا کہ یہ ابھی ایک قیاس آرائی ہے، تاہم شواہد اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ دماغی سرگرمیوں کی کمی اس احساس میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔
یہ خیال جولائی 2024 میں امریکا کی نیواڈا یونیورسٹی کی ایک تحقیق سے بھی مطابقت رکھتا ہے، جس میں بتایا گیا تھا کہ ہمارا دماغ گھڑی کی طرح منٹ بہ منٹ وقت کا حساب نہیں رکھتا، بلکہ ہم وقت کا تعین اپنے تجربات اور واقعات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔اس تحقیق کے مطابق، جب ہم غیر فعال یا بور ہوتے ہیں تو وقت سست محسوس ہوتا ہے، اور جب ہم مصروف یا متحرک ہوتے ہیں تو دماغی سرگرمیاں تیز ہو جاتی ہیں، جس سے وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس ہوتا ہے۔پہلے کیے گئے مختلف مطالعات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمر کے ساتھ دماغ کی اندرونی گھڑی کی رفتار سست ہو جاتی ہے، جس کے باعث زندگی تیز رفتار محسوس ہونے لگتی ہے۔دیگر تحقیقات نے عندیہ دیا ہے کہ وقت کے احساس کا تعلق دماغ میں پیدا ہونے والی نئی یادداشتوں سے بھی ہے — جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو ہر چیز نئی لگتی ہے، دماغ زیادہ تجزیہ کرتا ہے، اور اسی وجہ سے وقت آہستہ گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ایک اور تحقیق کے مطابق، ڈوپامائن ہارمون کے اخراج میں 20 سال کی عمر کے بعد کمی آنے لگتی ہے، جو وقت کے تیزی سے گزرتے احساس میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔















































