اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )اس تجویز پر عملدرآمد کے لئے ضروری تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اپنے امیدوار دستبردار کراتیں۔روزنامہ جنگ میں شائع سینئر کالم نگار حامد میر اپنے کالم ’یہ کمپنی کیسے چلی گی ؟ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔چوہدری صاحب نے دونوں اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ قائم کیا۔ بہت بحث ہوئی۔ شکوے شکایتیں ہوئیں۔ پیپلز پارٹی مان گئی لیکن مریم نواز نہیں مانتی تھیں۔
مجھے مریم نواز نے خود بتایا کہ میں اپنی پارٹی کے امیدواروں کو دستبردار کرانے کے سخت خلاف تھی لیکن جب پارٹی کے سینئر لوگوں نے اصرار کیا تو میں نے اُن کی بات مان لی۔ مسلم لیگ (ن) کے ان سینئر لوگوں کے ساتھ تحریک انصاف کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ اگر کوئی رابطہ تھا تو وہ چوہدری پرویز الٰہی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی پنجاب میں سینیٹ کے تمام امیدواروں کے بلا مقابلہ منتخب ہونے کا اعلان ہوا تو مسلم لیگ (ن) کے نو منتخب سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اس کا کریڈٹ چوہدری صاحب کو دیا اور تحریک انصاف کے سینیٹر ولید اقبال نے بھی اس کا کریڈٹ چوہدری صاحب کو دیا۔ چوہدری صاحب کو ملنے والا یہ کریڈٹ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ انہوں نے یہ کریڈٹ اپنے نام لگوانے کے لئے بڑے جتن کئے۔ بات نہ بنی۔ پھر ایک کالم لکھا گیا جس میں کہا گیا کہ ’’ولید اقبال کا یہ کہنا کہ پنجاب میں بلا مقابلہ سینیٹرز منتخب ہونے کا کریڈٹ پرویز الٰہی کو جاتا ہے، قطعاً درست نہیں۔ یہ کریڈٹ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا ہے‘‘۔ میں نے یہ کالم نہیں پڑھا تھا۔ لاہور سے ایک دوست نے فون کرکے توجہ دلائی کہ ’’یہ کالم پڑھئے، اس میں کچھ الفاظ آپ سے بھی منسوب ہیں‘‘۔ کالم پڑھ کر میں نے چوہدری پرویز الٰہی سے بات کی تو وہ ہنسنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ جب تحریک انصاف کے ارکانِ پنجاب اسمبلی نے وزیراعلیٰ کو ملنے سے انکار کرنا شروع کیا تو وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری نے مجھے بار بار فون کیا اور کہا کہ آپ کچھ کریں۔ چوہدری صاحب نے پوچھا کہ یہ کالم کس نے لکھا ہے؟ میں نے بتایا کہ ابھی پچھلے ہی مہینے وزیراعلیٰ پنجاب نے مجلسِ ترقی ادب کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ڈاکٹر تحسین فراقی کو ہٹا کر وہاں اپنے ایک منظورِ نظر کو تعینات کیا ہے جن کو ایک سال کا کنٹریکٹ ملا ہے اور آپ کے خلاف یہ کالم اسی کنٹریکٹ ملازم نے لکھا ہے۔