اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف صحافی صابر شاکر نے اپنے یو ٹیوب چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قومی سیاست میں اہم ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے، انہوں نے کہا کہ دو ہفتے پہلے جو بھونچال آیا تھا جو زلزلہ آیا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ جو کچھ ہمیں نظر آ رہا ہے نہ پارلیمنٹ رہے گی نہ صوبائی اسمبلیاں رہیں گی، نہ قومی اسمبلی رہے گی اور یہ سارے کا سارا جمہوری نظام تہس نہس ہو جائے
گا، کیونکہ ایک نااہل، سزا یافتہ (نواز شریف) نے افواج پاکستان کے چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر کو للکارا ہے، انہوں نے کہا کہ دیکھنا اب ٹانگیں کانپتی کیسے ہیں اور کیسے یہ ہوتا ہے۔ معروف صحافی نے کہا کہ ریاست اتنی کمزور نہیں ہے کہ وہ ایک سزا یافتہ اور نااہل ہو اور وہ ضمانت پر رہا ہو، اس ایک شخص کے کہنے پر یا ایک خاندان کے کہنے پر پورے کا پورا افواج پاکستان کا جو ادارہ ہے وہ بالکل ملیامیٹ ہو جائے گا خدانخواستہ، اور پاکستان کا جمہوری نظام بھی زمین بوس ہو جائے گا، ہم نے یہ کہا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے پاکستان اتنا کمزور نہیں ہے اور پاکستان کے ادارے بھی اتنے کمزور نہیں ہیں، ان لوگوں نے بیرونی عناصر اور اندرونی سپاٹ فکسر سے مل کر یکدم یلغار کرنے کی حکمت عملی بنائی، ان کا خیال تھا کہ اس وجہ سے عوامی لہر اٹھے گی اور اس سے یہ لوگ فائدہ اٹھائیں گے اور پھر یہ لوگ ہم سے معاملات طے کریں گے اور پھر ہم اپنی مرضی سے ان کے ساتھ بات چیت کریں گے اور اپنے لئے رعایتیں حاصل کریں گے، اپوزیشن والوں کا پہلا اندازہ غلط نکلا اور مذاکرات نہیں ہوئے۔ نہ ہی کسی نے لفٹ کرائی بلکہ اس کا الٹ یہ ہوا کہ ریاست مزید تگڑی ہو گئی اور عسکری اور سول قیادت میں مزید قربت بڑھی، مزید غور وخوض کیا گیا تو پتہ چلا کہ ایجنڈا ہی کچھ اور ہے، ن لیگ کی جانب سے پھر ایک پیغام آیا اور کہا گیا کہ ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں اور ایک براہ راست ملاقات
مانگی، ایک درخواست کی گئی کہ ہم ذرا میاں صاحب کو سمجھاتے ہیں تو ذرا تھوڑی سی نرمی پیدا کیجئے اور سارا ملک ہمارا ہی ہے، ہم نے ساتھ لے کر بڑھنا ہے، لندن میں بھی کچھ ملاقاتیں ہوئیں اور لندن میں بھی پیغام رسانی کا کام کیا گیا اور ادھر بھی پیغامات بھجوائے گئے لیکن بات چیت زیرو ٹالرنس پر تھی، خبر یہ چلوائی گئی کہ سلمان شہباز کے ذریعے دوبارہ بات چیت کا بیک
ڈور کھلا ہے اور اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت شروع ہو گئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود ان لوگوں نے رابطہ کرنے کی کوشش کی، اور انہی کرداروں کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، خواجہ آصف نے ایک ریٹائرڈ صاحب سے ملاقات کی اور شاہد خاقان عباسی کو بھی جائزہ لینے کا کہا گیا لیکن
دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی جانب سے فیصلہ کیا گیا کہ دیکھتے ہیں کہ یہ کس حد تک جاتے ہیں اور نہیں کا اشارہ دیا گیا، دیکھتے ہیں کہ یہ کہاں تک جاتے ہیں، تازہ ترین صورتحال کے مطابق اب کسی قسم کی کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی نہ براہ راست اور نہ ہی ان ڈائریکٹ کی جائے گی۔