اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)گزشتہ ہفتے عسکری قیادت اور پارلیمانی لیڈرز کے درمیان اہم ترین ملاقات ہوئی ، اس حوالے سے اپنے تجزئیے میں سینئررئوف کلاسرا نے کہا ہے کہ انہوں نے چارٹرڈ آف ڈیموکریسی میں یہ عہد کیا تھا کہ ہم جرنیلوں سے خفیہ ملاقاتیں نہیں کریں گے
لیکن پھر اسے بھول گئے اور جرنیلوں سے ملاقاتیں شروع کردیں۔جس دن ایف اے ٹی ایف قانون کی منظوری ہوئی، انہیں اسی دن بلایا گیا تھا،انہیں آئی ایس آئی کے میس میں بلایا گیا کہ آئیں آپکو کھانا کھلاتے ہیں، اس میں یہ سب پہنچ گئے، پہنچنے والے کون ہیں؟ بلاول ، شہباز شریف، سراج الحق صاحب اور مولانا فضل الرحمان نے تو اپنے بیٹے کو بھیجا۔ شیری رحمان تھیں، سب سے بڑے جو اپنے والد کی معافیاں مانگتے تھے کھڑے ہوکر کہ میرے والد نے جرنیلوں کے ساتھ ملکر بہت زیادتیاں کی تھیں، وہ بھی موجود تھے۔رئوف کلاسرا نے مزید کہا کہ اس میں شیخ رشید کو بھی بلایا گیا تھا، انہیں گواہی کے طور پر رکھا گیا تھا تاکہ یہ مکر نہ جائیں۔اگر یہ مکریں گے تو شیخ رشید ٹی وی اور پارلیمنٹ میں انکی کلاس لیتے رہیں گے،رئوف کلاسرا نے ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ فوج کی 2 تین ڈیمانڈز ہیں، ایک ڈیمانڈ یہ تھی کہ اٹھارہویں ترمیم کو ریورس کیا جائے، اس میں این ایف سی کا مسئلہ آرہا ہے کہ صوبوں کو پیسے زیادہ مل رہے ہیں اور مرکز کے پاس کم ہیں۔
مرکز کا موقف ہے کہ ہمارے پاس جو پیسے بچتے ہیں سب آپ لے جاتے ہیں، جو قرضے ہیں وہ ہمیں ہی واپس کرنے پڑتے ہیں۔اختیارات کا بھی مسئلہ چل رہا ہے، اس پر بھی پکڑا ہوا ہے کہ انہیں ریورس کریں۔آرمی کی دوسری ڈیمانڈ بتاتے ہوئے رئوف کلاسرا نے کہا کہ دوسرا فوج یہ
چاہتی ہے کہ گلگت بلتستان میں سی پیک کی وجہ سے آئینی ترامیم لانا چاہتے ہیں تاکہ تنازعات ختم ہوں، اسے پاکستان کا پانچواں صوبہ بنادیا جائے۔کلاسرا کے مطابق جنرل باجوہ نے مولانا فضل الرحمان کے بیٹے کو کہا کہ آپ کیا مجھے میسیجز بھیجتے رہتے ہیں کہ ملنا ہے، میٹنگ کرنی ہیں، سیکرٹ ملاقاتیں بھی کرتے ہیں اور طعنے بھی دیتے ہیں۔