ہفتہ‬‮ ، 28 ستمبر‬‮ 2024 

گردشی قرض میں ماہانہ کتنے ارب اضافہ ہو رہا ہے، قابو پانے کی تمام کوششیں ناکام، تہلکہ خیز انکشاف

datetime 6  ستمبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آن لائن)تاجر رہنما اوراسلام آباد چیمبر کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ تمام تر دعووں کے باوجود موجودہ حکومت گردشی قرضہ میں ماہانہ 45 ارب روپے کا اضافہ کر رہی ہے جبکہ سابقہ حکومت گردشی قرضہ میں ماہانہ 38 ارب کا اضافہ کرتی رہی تھی۔ گردشی قرضہ پر قابو پانے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں کیونکہ سابقہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی اس

شعبہ میں اصلاحات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ شاہد رشید بٹ نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ سال اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے دعویٰ کیا تھا کہ گردشی قرضہ کو ماہانہ38 ارب روپے سے کم کر کے آٹھ سے دس ارب روپے کر دیا گیا ہے جو 2020میں ختم ہو جائے گاتاہم 2020میں ہی یہ 538 ارب روپے کے اضافہ کے ساتھ 2.1 کھرب روپے سے بڑھ چکا ہے۔موجودہ حکومت نے دو سال میں گردشی قرضہ کو دگنا کر دیا ہے جبکہ سابقہ حکومت کے دور میں گردشی قرضہ ماہانہ 38 روپے کے حساب سے بڑھتا تھا جبکہ موجودہ حکومت نے اسے ماہانہ 45 ارب تک پہنچا کر ان کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔گردشی قرضہ میں اضافہ کے ذمہ دار اوں کے خلاف حسب سابق کوئی کاروائی نہیں ہو گی اور انکی نا اہلی کا سارا ملبہ عوام پر ہی ڈالا جائے گا۔موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت کی طرح ایماندار صارفین پر بوجھ بڑھائے بغیر گردشی قرضہ ختم کرنے کے بجائے بجلی کی قیمت میں اضافہ کا شارٹ کٹ اختیار کرنے تو ترجیح دیتی ہے۔انھوں نے کہا کہ نئے ضلعے بنانے کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے۔نئے اضلاع بنانے سے عوام یا معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا تاہم سیاستدانوں کی انا کی تسکین ہوتی ہے۔سیاستدانوں کے نام و نمود اور ناجائز خواہشات نے قرضہ کو 36 ارب روپے تک بڑھا دیا ہے جو ملک کو دیوالیہ کرنے کے لئے کافی ہے۔شاہد رشید بٹ نے یہاں جاری ہونے والے

ایک بیان میں کہا کہ مختلف حکومتوں کی جانب سے ملک کے چاروں صوبوں میں چالیس غیر ضروری ضلعے بنائے گئے ہیں۔ ایک نیا ضلع بنانے پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں جبکہ اس کا سالانہ خرچ دو سے تین رب روپے ہوتا ہے جو عوام کی جیب سے نکلتا ہے۔صحت تعلیم پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب جیسے اہم شعبوں کو چھوڑ کر غیر ضروری میگا پراجیکٹس بنانے کی دوڑ اور نئے

اضلاع بنانا ملکی مفاد کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔اگر نئے ضلعے بنانے سے عوام کو کوئی فائدہ ہوتا یا انھیں کسی قسم کا ریلیف ملتا تو اس وقت ملک کی یہ حالت نہیں ہوتی جبکہ اس سے سیاستدانوں کے علاوہ بیوروکریسی کو فائدہ پہنچتا

ہے کیونکہ انھیں نئی آسامیاں مل جاتی ہیں اور انکی تنخواہ، الاؤنس، رہائش، میڈیکل اخراجات،گاڑیوں اور پنشن پر بھاری اخراجات اٹھتے ہیں۔اگر غیر ضروری اضلاع کو ختم کر دیا جائے تو سالانہ کم ازکم ایک سو ارب روپے کی بچت ممکن ہے۔

موضوعات:



کالم



خوشحالی کے چھ اصول


وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…

حرام خوری کی سزا

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995ء میں پیجر کے…

مولانا یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ مینجمنٹ

مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں…

ایس آئی ایف سی کے لیےہنی سنگھ کا میسج

ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر…

راشد نواز جیسی خلائی مخلوق

آپ اعجاز صاحب کی مثال لیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!(آخری حصہ)

لی کو آن یو اہل ترین اور بہترین لوگ سلیکٹ کرتا…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!

میرے پاس چند دن قبل سنگا پور سے ایک بزنس مین آئے‘…

سٹارٹ اِٹ نائو

ہماری کلاس میں 19 طالب علم تھے‘ ہم دنیا کے مختلف…

میڈم چیف منسٹر اور پروفیسر اطہر محبوب

میں نے 1991ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے…