کراچی (این این آئی)اسرائیل میں بسنے والے پاکستانی نژاد یہودی نے کراچی آنے کے خواہش ظاہر کر دی۔پاکستانی نژاد یہودیوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے آبائی وطن کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان کے قیام کے وقت کراچی میں تقریبا 2500 یہودی رہتے تھے جن کیلئے ایک عبادت گاہ بھی تھی جس کا نام تھا میگن شالوم سینگاگ اس پر بنی اسرائیل مسجد درج تھا۔
یہ عبادت گاہ کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں تھی جو کراچی جنوبی ضلع کی ایک قدیم ترین بستی ہے۔رنچھوڑ لائن کے کئی پرانے باسیوں کو یہودیوں کی یہ عبادت گاہ بہت اچھی طرح ذہن نشین ہے جب کہ کراچی میں پیدا ہونے والے یہودی اب بھی بڑی اچھی اردو بولتے ہیں۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے منتقل ہونے والے آخری یہودی خاندان سے نجی ٹی وی نے رابطہ کیا۔متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ٹیلی فون سروس کے آغاز ہونے کے بعد فون پر گفتگو کی۔ یہ یہودی اب بھی کراچی کی ٹھنڈی شامیں اور راوداری کو یاد کرتے ہیں۔ایمانوئیل میتات 59 سال کے ہیں اور اسرائیل میں رہتے ہیں، اردو بہت شاندار بولتے ہیں۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے شیدائی ہیں، سبز ہلالی پرچم کے رنگوں سے مزین پاکستانی قومی ٹیم کہیں بھی کرکٹ کھیلے، پاکستانی کے کئی سو میل دور بسے میتات کے دل کی دھڑکن اسرائیل میں کرکٹ دیکھتے ہوئے تیز ہوتی ہے۔ایمانوئیل میتات تین دہائی پہلے پاکستان سے منتقل ہوئے۔ فون پر بات ہوئی تو کہنے لگے بھائی، بریانی تیار کرو، میں دبئی آؤں گا۔ایمانوئیل میتات اب کراچی جانے کی خواہش رکھتے ہیں حالانکہ ابھی یہ ایک خواب ہی ہے تاہم انہوں نے جلد دبئی جانے کا منصوبہ بنالیا ہے۔میتات کا گھرانہ وہ آخری یہودی گھرانہ تھا جو پاکستان سے منتقل ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ جب ان کے والد کی 1957 میں کراچی میں شادی ہوئی تھی
تو کراچی میں یہودیوں کے 600 خاندان رہتے تھے۔انہوں نے کراچی کے بی وی ایس اسکول سے تعلیم حاصل کی۔میتات کے مطابق ان کے والد ریحیم کاروباری شخصیت تھے، قالین کا کاروبار کرتے تھے اور پوری دنیا سے یہودی قالین کا آرڈر دیتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ والد پاکستان چھوڑنا نہیں چاہتے تھے، مگر کچھ مجبوریاں نہ ہوتی تو وہ بھی پاکستان نہ چھوڑتے۔میتات نے بڑے فخر سے اپنا پرانا پاکستانی پاسپورٹ دکھایا
جس پر ان کا مذہب بھی درج ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی کی عبادت گاہ میں شہر کی تمام یہودی آبادی جمع ہوتی تھی، بہت اطمینان سے عبادت کرکے مسلمان تانگے والے ہمیں گھروں تک پہنچاتے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ متعدد بار مسلمان تانگے والے پیسے بھی نہیں لیتے تھے۔ میتات نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہ جولائی 1988 میں عبادت گاہ کی جگہ شاپنگ پلازہ بنا دیا گیا۔میتات کے علاوہ کچھ اور یہودیوں نے بھی گفتگو کی مگر انھوں نے اپنا نام میڈیا میں نہ دینے کی شرط پر بتایا کہ کراچی میں ان کا بچپن گزرا مگر اب بہت دوریاں پیدا ہوچکی ہیں، وہ امید کرتے ہیں کہ وہ بھی کراچی گھومنے کا خواب دیکھتے ہیں۔کئی نے کہا کہ ان کے آباؤ اجداد کی قبریں کراچی میں موجود ہیں، ان قبروں پر جانا چاہتے ہیں۔