ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

جو جج اپنے اور خاندان کے اثاثے نہیں بتا سکتا وہ عوام کے اعتماد پر کیسے پورا اتر سکتا ہے؟ اگر میں جج ہوتا تو مجھے اپنے بیوی بچوں کے مالی معاملات کا پتہ ہوتا، فروغ نسیم کے جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں بھرپوردلائل

datetime 16  جون‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آن لائن)صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاقی کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ اگر میں جج ہوتا تو مجھے اپنے بیوی بچوں کے مالی معاملات کا پتا ہوتا،جج کی یہ قانونی ذمہ داری ہے کہ اسے اپنے اہل خانہ کے مالی معاملات کا علم ہو۔

جو جج اپنے اور خاندان کے اثاثے نہیں بتا سکتا وہ عوام کے اعتماد پر کیسے پورا اتر سکتا ہے، ایسے شخص کو اپنے عہدے پر نہیں رہنا چاہیے،پوری دنیا میں پبلک سرونٹ اپنے اور اہل خانہ کے اثاثے ظاہر کرنے کا پابند ہے،ریکارڈ بلکل خاموش ہے کہ جج صاحب کی اہلیہ نے جائیدادیں کیسے بنائیں، جج اپنی عدالت کے اندر اور عدالت سے باہر ضابطہ اخلاق کا پابند ہوتا ہے،کیا پبلک سرونٹ کی بیوی کو خود کفیل ظاہر کر کے مال بنانے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے،کونسل کے پوچھنے پر جج کے جواب دینے سے عدلیہ کا اعتماد بڑھے گا،خود کفیل اہلیہ پر سول سرونٹ جوابدہ نہیں اس لیے قانون میں تفریق پیدا کرنی پڑے گی، باقی سول ملازمین تو اہلیہ کی جائیداد کی وضاحت دیں، ایک سول سرونٹ کہتا ہے میں اہلیہ کی جائیداد پر جواب نہیں دوں گا،اہلیہ آکر بتا دیں پیسہ کہاں سے آیا، پیسہ باہر کیسے گیا، سروس آف پاکستان کے تحت کوئی اہلیہ کی پراپرٹیز کا جواب دینے سے انکار نہیں کر سکتا،سرکاری ملازم ملازم اگر اہلیہ کا بہانا بنائے تو اسے جیل بھیج دیا جائے گا،جج نے نہیں کہا میری اہلیہ مجھے معلومات فراہم نہیں کر رہی، پبلک سرونٹ سے اثاثوں کی تفصیل مانگی جائے تو وہ انکم ٹیکس کا عذر پیش نہیں کر سکتا،اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ حکومت نے نہیں مانگا۔

ایف بی آر سے ٹیکس کا ریکارڈ جوڈیشل کونسل نے منگوایا، میں اگر بطور رکن پارلیمنٹ اہلیہ کے کے اثاثوں کی تفصی نہ بتاوں تو نااہل ہوجاؤںگا،وزیراعظم اور صدر نے وحید ڈوگر کی معلومات کی تصدیق کرائی، وحید ڈوگر کی شکایت اٹھا کر کونسل کو نہیں بھیج سکتے تھے ہمارے پاس یہ معلومات آئی کہ جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع نہیں ہیں، حکومت نے وہ معلومات جوڈیشل کونسل کو بھج دی،یہ درست نہیں ہے کہ صدر مملکت کے سامنے کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔

ریفرنس کا جائزہ لیکر کونسل نے شوکاز نوٹس جاری کیا،یہ ایسا مقدمہ ہے جس میں ہم نے آگے کیلئے سوچنا ہے، کل میں نہیں ہوگا اور ججز بھی نہیں ہونگے، صدر مملکت آرٹیکل 209 کے تحت ایگزیکٹو کا کردار ادا کرتا ہوں،ایف بی آر کے معاملے پر فیصلے کی ضرورت نہیں ہے، کسی سے اثاثے چھپانے پر وضاحت مانگی جاتی ہے، جوڈیشل کونسل کے سامنے کوئی پٹیشن نہیں ہے، پانامہ اور خواجہ آصف کے مقدمات میں اثاثے چھپانے پر رٹ پٹیشن دائر ہوئی تھی، منفی مہم چاہے ہمارے خلاف ہو یا درخواست گزار کیخلاف وہ قابل مذمت ہے۔

جائیداد جج کی ہے، ٹرائل پر ہم ہیں، میں بتا نہیں سکتا کس صورتحال سے گزر رہا ہوں، جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک جواب میں مجھے ٹاؤٹ کہا، پراپرٹی جسٹس قاضی فائز عیسی کے اہل خانہ کی ہے ٹرائل پر ہم ہیں، پریس میں جاکر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی نفی بھی نہیں کر سکتے، میں نے جج صاحب کیخلاف کوئی بات نہیں کہی، جسٹس قاضی فائز عیسی نے مجھے ٹاؤٹ کہا۔معاملہ کی سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بنچ نے کی دوران سماعتجسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار نے بدنیتی اور غیر قانونی طریقے سے شواہد اکٹھے کرنے کا الزام لگایا ہے۔

ریفرنس میں قانونی نقائص موجود ہیں، عمومی مقدمات میں ایسی غلطی پر کیس خارج ہو جاتا ہے،اگر ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے، ابھی تک ریفرنس میں کئی خامیاں موجود ہیں،لندن کی جائیدادوں کی ملکیت تسلیم شدہ ہے، مقدمے میں سوال جائداد کی خریداری کا ہے،درخواست گزار نے جائیدادوں کے وسائل خریداری بتانے سے بھی انکار نہیں کیا،درخواست گزار چاہتا ہے کہ قانون کے مطابق کاروائی کی جائے،ایف بی آر نے 116 اور 114 کے تحت نوٹس جاری کئے،معاملہ جوڈیشل کونسل کے پاس بھی چلا جائے۔

اگر بدنیتی نہیں ہے تو کونسل کاروائی کر سکتی ہے، آج بدنیتی اور شواہد اکٹھے کرنے پر دلائل دیں،ہم اپنی زمہ داریوں سے آگاہ ہیں،یہ ہوسکتا ہے پہلے ایف بی آر کو معاملے پر فیصلہ کرنے دیا جائے، وہاں پر فیصلہ اہلیہ کے خلاف آتا ہے تو پھر جوڈیشل کونسل میں چلا جائے، آپ کے مطابق قانون کی سہولت عام شہری کو دسیتاب ہے، ججز کو قانون کے مطابق یہ سولہت میسر نہیں ہے، آپ کا یہ اچھا نقطہ ہے، ہو سکتا ہے کہ انکم ٹیکس کہہ دے کہ ذرائع درست ہیں،ہو سکتا ہے ٹیکس اتھارٹی کے فیصلے سے جوڈیشل کونسل اتفاق کرے نہ کرے۔

دیکھنا تو یہ ہے جائیداد کی خریداری حلال ہے یا دوسرے طریقے سے، ہم اب بھی وہی نقطے پر ہیں جہاں سے آغاز کیا تھا،آپ نے ابھی اہم عدالتی سوالات کے جوابات دینے ہیں، آپ نے غیر قانونی طریقے سے شواہد اکھٹے کرنے پر ابھی دلائل دینے ہیں،آپ نے ابھی بدنیتی کے نقطے پر عدالتی معاونت کرنی ہے، آپ نے یہ بھی بتانا ہے شواہد اکھٹے کرنے کیلئے کیا طریقہ کار اپنایا گیا، جج اور اسکے اہل خانہ کی جاسوسی اور سنگین مہم جیسے الزامات کا بھی جواب دیں،۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ اکیا خاوند ایف بی آر سے براہ راست اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ مانگ سکتا ہے۔

جب ضابطے کی کارروائی کسی دوسری کاروائی پر انحصار کرے گی تو آزادانہ کاروائی کیسے ہوگی، اس صورتحال میں ضابطے کی کارروائی کا بھی فائدہ نہیں ہوگا، اگر سرکاری ملازم اپنی اہلیہ سے معلومات لینے سے قاصر ہو تو پھر ایسی صورت میں کیا ہوگا،ہلیہ معلومات دینے سے انکار کرے تو ایسی صورت میں خاوند ٹیکس ریکارڈ کیسے حاصل کرے گا، بتایا جائے کہ اے آر یو یونٹ کیسے بنایا گیا، وزیراعظم صرف وزارت بنا سکتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اہلیہ سے پوچھے بغیر جج سے ذرائع پوچھ لئے گئے، قانون دیکھا دیں کہ جج اہلیہ کے اثاثوں پر جواب دینے کے پابند ہیں۔

شوکاز نوٹس کی عدالت پابند نہیں ہے،اگر صدر مملکت ایگزیکٹو کی توسیع ہے تو صدر کو ریفرنس پر رائے بنانے کی کیا ضرورت ہے، آپ کی دلیل مان بھی لی جائے کہ سپریم کورٹ کارپوریٹ باڈی ہے تو کہاں لکھا ہے اس کا ڈائریکٹر اہلیہ کے اثاثے بتانے کا پابند ہے،رول آف پراکسیمیٹی صرف آپ کے دلائل میں ہے لکھا کہیں بھی نہیں،اس سوال کا بھی جواب دیں غیر ملکی جائیداد کی کھوج کیلئے کس ادارے نے شواہد اکھٹے کیے۔جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ کیا جج اہلیہ کی جائیدادوں پر جواب دہ ہیں۔

کیا صدر مملکت کا اختیار ہے کہ جج کے کنڈیکٹ کا جائزہ لیں، کونسل کس قانون کے تحت جج سے اہلیہ کی جائیداد پوچھ سکتی، صدارتی ریفرنس دائر کرنے سے قبل پریس کانفرنسوں میں جو کہا جاتا رہا ہمیں سب معلوم ہے،اگر ہم اس طرف گئے تو ملک میں بگاڑ (ٹرمائل ) پیدا ہو جائے گا،کہاں پر لکھا ہے کہ یہ جج کی قانونی ذمہ داری ہے؟ابھی تک تو آپ ہمیں متعلقہ قانون ہی نہیں بتا سکے، جو میں کہنا چاہ رہا ہوں وہ آپ سمجھنے کی کوشش کریں، آپ کی دلیل افسانوی معلوم ہوتی ہے کہ جج کی اہلیہ، بچوں کی جائیداد کو جج کی جائیداد تصور کیا جائے۔

۔جسٹس فیصل عرب نے ایک موقع پر کہا کہ اس کارروائی میں صدر کیخلاف بد نیتی کا الزام نہیں ہے،صدر مملکت کے پاس بھی انکوائری کا اختیار نہیں ہے،ریفرنس میں کرپشن کا کوئی مواد نہیں ہے،صدر مملکت کا اپنی رائے بنانا آئینی ہے،افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس کا سارا کام ایک دن میں ہوا تھا ،افتخار چوہدری کیخلاف ایک دن میں ریفرنس بنا کونسل بھی بن گئی،کوڈ آف کنڈکٹ 1967 میں آیا اور کارپوریٹ قوانین 1930 کے ہیں،اگر مطابقت نہ ہو تو کیا ہم سمجھ لیں کہ ہمارا کوڈ آف کنڈکٹ ناقص ہے، یہ نیا نہیں بلکہ وہی پرانا ہے صرف دوبارہ چھاپ دیا گیا ہے،کارپوریٹ باڈی کے ضابطہ اخلاق کا ہمارے کوڈ آف کنڈکٹ سے کیا تعلق؟ پہلے بھی کہا تھا ہمارے ساتھ زیادتی نہ کریں۔ عدالت عظمی نے اس موقع پر وفاق کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کو آئندہ ایک دن مین اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدائیت دیتے ہوئے معاملے کی سماعت ایک دن کیلئے ملتوی کر دی ہے ۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…