ممبئی(مانیٹرنگ ڈیسک)ایک طرف حاملہ ہتھنی کی موت پرنام نہاد جمہوری بھارت نوحہ کناں لیکن دوسری جانب اسی بھارت کے عدالتی نظام نے حاملہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ صفورا زرگر کی ضمانت مسترد کرکے کئی سوالات اٹھا دئیے۔تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا نے زرگر کی جانب سے دائر اپیل مسترد کرتے ہوئے کہا ، مجھے ضمانت کیلئے درخواست میں کوئی خاص چیز نظر نہیں آتی ۔ زرگر جنھیں مبینہ طور پر فروری کے وسط میں دہلی کے مختلف
علاقوں میں سی اے اے مخالف مظاہروں کی سربراہی کرنے کے الزام میں دہلی پولیس نے حراست میں لیا تھا ، اس سے قبل ان کی دو دفعہ ضمانت رد ہو چکی ہے۔سوشل میڈیا پر بے شمار صارف زرگر کی حمایت میں کود آئے ہیں اور انہوں نے حاملہ ہاتھی کی موت پر سوگ منانے والے افراد کی منافقت کے بارے میں سوالات اٹھائے اور زرگر پر مظالم کیخلاف شدید مشتعل ہوتے کہا کہ کسی کوان سے ہمدردی نہیں ہے ۔ واضح رہے کہ کچھ دن پہلے حاملہ ہتھنی کی ہندوستان میں موت واقعہ ہوئی تھی ،جسے مقامی شخص نے مبینہ طور پر اسے پائنیک سے بھرے انناس کو کھلایااور حاملہ ہتھنی کی موت ہو گئی۔ اس واقعہ سے ملک میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔تاہم صفورا کو حاملہ ہونے کے باوجود جیل میں رہنے پر مجبور کیا گیا ہے جبکہ وہ کورونا وائرس کے خطرہ کے تحت رہا تھا ، اور کسی نے بھی اس پر کوئی تشویش ظاہر نہیں کی ہے۔ایک صارف نے لکھا ، اگر زرگرکیساتھ پیش آنے والے اس طرح ، بے شرمی کے ساتھ امتیازی سلوک اور مراعات یافتہ ہجوم نے اپنا جعلی غم و غصہ ظاہر کیا ہوتا۔واضح رہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کشتواڑ سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ صفورہ زرگر گذشتہ تین ہفتوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں۔جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کی ریسرچ سکالر اور جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی میڈیا کوآرڈی نیٹر صفورہ پر دہلی میں رواں برس فروری میں بھڑکنے والے بھیانک فسادات کی ’کلیدی سازشی‘ ہونے کا الزام ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی
جانب سے پچھلے سال دسمبر میں ’بھارتی شہریت‘ کے قوانین میں ترمیم کے خلاف ملک گیر مظاہروں کے دوران دہلی میں بھڑکنے والے ان فسادات میں کم از کم 53 افراد مارے گئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔گذشتہ روز جب دہلی میں مقیم ایک سینیئر کشمیری صحافی نے فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں صفورہ زرگر کی کشمیری شناخت ظاہر کی اور ان کے حاملہ ہونے کا انکشاف کیا، تب سے
سوشل میڈیا پر اس ریسرچ سکالر کے حق میں تحریروں کا سیلاب دیکھنے کو مل رہا ہے۔کشمیری عوام یہ جاننے کے لیے بے تاب نظر آرہی ہے کہ آخر بھارتی حکومت نے حاملہ صفورہ کو کیونکر تہاڑ جیل میں بند کر رکھا ہے، جہاں پہلے سے ہی درجنوں کشمیری مقید ہیں اور دو کشمیریوں (مقبول بٹ اور افضل گورو) کی باقیات مد فون ہیں جنہیں وہاں تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔جامعہ ملیہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی
سرگرم رکن عائشہ رینا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صفورہ کو 10 فروری کو گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں حکومت نے ان کی ضمانت روکنے کے لیے ایک اور مقدمہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ترمیم شدہ ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت درج کیا۔انہوں نے بتایا کہ ’صفورہ پر ایک مقدمہ تعزیزات ہند کی مختلف دفعات کے تحت درج کیا گیا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ان کی تقریر دلی تشدد کا موجب بنی۔
’گرفتاری کے دو تین دن بعد صفورہ کو ضمانت ملی لیکن جس دن جیل سے رہا ہونا تھا اسی دن ان پر ایک اور مقدمہ یو اے پی اے کے تحت درج کیا گیا جس کی وجہ سے ضمانت ملنا مشکل بن گیا ہے۔‘بھارت میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف خصوصی انسداد دہشت گردی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے
اور جرم ثابت ہونے پر اُس شخص کو دو سے سات سال تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔اس متنازع قانون کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں ضمانت ملنا بہت مشکل ہے۔کشتواڑ میں صفورہ کے اہل خانہ سخت پریشان ہیں۔ ان کی والدہ کرونا وائرس سے متاثرہ تھیں۔ اُس صدمے سے باہر آنے کے بعد اب پوری فیملی حاملہ صفورہ کی حفاظت کو لے کر پریشان اور فکر مند ہے۔صفورہ کے والد شبیر حسین زرگر نے،
جو ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہیں، انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہماری بیٹی ایک طالبہ ہے اور ان کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں۔ ہم ان کی سیفٹی کو لے کر بہت پریشان ہیں۔ آپ بھی ان کی رہائی کے لیے دعا کریں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صفورہ کے شوہر دلی میں ہیں اور وہ اُن کی فوری رہائی کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ وکلا سے مسلسل رابطے میں ہیں۔‘انڈپینڈنٹ اردو نے صفورہ کے شوہر سے
بات کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا فون مسلسل بند آ رہا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ دہلی میں ایک نجی کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اور گذشتہ چند برسوں سے دہلی میں مقیم ہیں۔کشتواڑ میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیئر لیڈر ایڈوکیٹ فردوس احمد ٹاک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بے شک یو اے پی اے کے تحت درج ہونے والے مقدمے میں ضمانت ملنا مشکل ہے لیکن چونکہ صفورہ حاملہ ہیں،
تو انہیں اس کے پیش نظر ضمانت ملنی چاہیے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک حاملہ ریسرچ سکالر کو تہاڑ جیل میں بند رکھنے سے ملک کی موجودہ صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہیں اختلاف رائے کی آواز بلند کرنے کی وجہ سے جیل میں ڈال دیا گیا۔ میں ان کے اہل خانہ سے رابطے میں ہوں اور دہلی میں ان کے شوہر کیس فالو کر رہے ہیں۔‘کشمیری سیاست دان اور سابق بیورو کریٹ ڈاکٹر شاہ فیصل کی
جماعت جموں وکشمیر پیپلز موومنٹ کے ترجمان ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جہاں اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں قیدیوں کو انسانی بنیادوں پر رہا کیا جا رہا ہے وہیں بھارت میں انسانیت کچلی جا رہی ہے۔بقول ان کے ایک حاملہ ریسرچ سکالر کو تہاڑ جیل میں بند رکھنا بھارت کی جمہوریت پر لگنے والا ایک بدنما داغ ہے۔ڈاکٹر مصطفیٰ نے اپنی جماعت کے سرپرست ڈاکٹر شاہ فیصل کا،
جنہیں گذشتہ برس اگست سے مسلسل سری نگر میں بند رکھا گیا ہے، ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں کی حکومت قوم کی آواز بننے کے لیے سامنے آنے والے نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال رہی ہے۔ آپ کے پاس ایک مثال ڈاکٹر شاہ فیصل کی بھی ہے۔ انہیں بھی بغیر کسی جرم کے بند رکھا گیا ہے۔‘سرگرم سماجی کارکن گفتار احمد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دہلی میں کپل مشرا اور انوراگ ٹھاکر جیسے بی جے پی لیڈران نے
دن دھاڑے ہندوؤں اور مسلمانوں کو لڑایا لیکن وہ آزاد ہیں جبکہ صفورہ جیل میں ہیں۔وہ مزید کہتے ہیں کہ ’کیا 10 فروری کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں گھس کر طلبا کو مارنے والی پولیس کے لیے کوئی قانون نہیں؟ صفورہ کے پیٹ میں تین ماہ کا بچہ ہے۔ اگر ہم ان کے حق میں نہیں بولیں گے تو ہم انسان کہلانے کے لائق
نہیں۔‘بھارتی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق صفورہ کو ہفتے میں دو بار اپنے گھر والوں اور وکلا کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔انہیں ایک اور خاتون کے ساتھ بند رکھا گیا ہے اور رپورٹ کے مطابق حاملہ ہونے کے پیش نظر انہیں معقول طبی نگہداشت فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ روزے بھی رکھتی ہیں۔