وزیرستان (این این آئی)جنوبی و شمالی وزیرستان کے سرحدی گاؤں میں نوجوان شخص کیساتھ موبائل ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد دو لڑکیوں کو مبینہ طور پر گھر کے فرد کی جانب سے غیرت کے نام پر قتل کردیا۔شمالی وزیرستان میں رزمک پولیس اسٹیشن،جس کی حدود قتل کیے گئے تھے، نے ریاست کی مدعیت میں ابتدائی اطلاعی رپورٹ(ایف آئی آر) درج کرکے تحقیقات شروع کردیں۔
دستیاب ایف آئی آر کے مطابق واقعہ 14 مئی کو خیرپختونخوا میں شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سرحدی گاؤں شام پلین گڑیوم میں دوپہر دو بجے کے قریب پیش آیا۔اسٹیشن ہاؤس افسر کی جانب سے درج ایف آئی آر کے مطابق شام پلین گڑیوم میں چچا زاد بھائی کی جانب سے 16 اور 18 برس کی 2 لڑکیوں کے غیرت کے نام پر قتل کی مصدقہ اطلاع موصول ہوئی تھی جس کا نام اور پتہ معلوم نہیں۔اس میں کہا گیا کہ غیرت کے نام پر قتل کی وجہ ایک ویڈیو کو مانا جارہا ہے جس میں ایک نوجوان کو باہر ویران علاقے میں 3 لڑکیوں کے ساتھ اپنی ویڈیو بناتے ہوئے دیکھا گیا ۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیرستان کے سینئر پولیس افسر نے واقعے کی تصدیق کی اور بتایا کہ 52 سیکنڈ پر مشتمل موبائل ویڈیو کلپ میں نظر آنے والی 3 میں سے 2 لڑکیوں کو قتل کردیا گیا انہوں نے کہا کہ پولیس ویڈیو میں نظر آنے والے شخص اور تیسری لڑکی کی معلومات جمع کررہی ہے۔پولیس عہدیدار کے مطابق یہ ویڈیو تقریبا ایک برس قبل بنائی گئی تھی اور ممکنہ طور پر چند ہفتے قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔انہوں نے تحصیلدار کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق تیسری لڑکی اور لڑکا زندہ ہیں۔پولیس عہدیدار نے انکشاف کیا کہ واقعہ کے بعد لاشوں کی تدفین کے لیے دونوں خاندانوں کے جنوبی وزیرستان میں آبائی گاؤں شکوتئی منتقل ہونے کی اطلاعات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ واقعہ دور دراز علاقے میں پیش آیا جو سیکیورٹی کے حوالے سے خطرناک سمجھا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ کیس کی مزید تحقیقات کے لیے پولیس ٹیم بھی بھیجی گئی ۔پولیس عہدیدار کے مطابق لڑکیوں کے خاندانوں کی جانب سے لاشوں کو جنوبی وزیرستان منتقل کرنے کے باعث دونوں لڑکیوں کے نام تاحال معلوم نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ تحصیلدار کے ہمراہ پولیس ٹیم کو علاقے کا دورہ کرنے اور حتمی رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔پولیس عہدیدار نے کہا کہ کوئی کارروائی کرنے سے قبل اس وقت ہماری اولین ترجیح تیسری لڑکی اور اس شخص کی زندگی بچانا ہے۔
تحقیقات کی نگرانی کرنے والے پولیس اہلکار نے کہا کہ جنوبی اور شمالی وزیرستان کے علاقوں شکوتئی اور بارگرام دونوں میں موبائل کوریج نہیں۔انہوں نے کہا کہ قبائلی روایت میں معاشرے میں قبیلے کو بدنام کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ، انہوں نے کہا کہ پولیس کے لیے کیس کی تحقیقات بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ ویڈیو میں موجود مواد مکمل طور قبائلی معاشرے کی اقدار کے خلاف ہے۔مذکورہ واقعہ 2012 میں کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے 8 سال بعد پیش آیا ہے، جس میں 2 لڑکوں کے رقص کے دوران 3 خواتین کی تالیاں بجانے کی ویڈیو وائرل ہونے پر انہیں غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تھا۔