اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سعودی اخبار’ ’عرب نیوز‘‘ کے سابق ایڈیٹر خالد المینا نے ایک بھارتی خاتون صحافی کو انٹرویو کے دوران ہندو انتہا پسندوں کو کھری کھری سنا ڈالیں۔ خالد المینا25سال تک عرب نیوز کے ایڈیٹر رہے اور ایک سیاسی تجزیہ کار بھی ہیں۔ وہ بڑی اچھی اردو بھی بول لیتے ہیں۔ خالد المینا نے اردو زبان میں دیئے گئے انٹرویو میں کھری کھری باتیں سناتے ہوئے کہا کہ خلیجی ممالک میں لاکھوں ہندو مقیم ہیں۔
جن کے ساتھ عوام اور حکومت نے ہمیشہ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔تاہم اسلاموفوبیا کی جو لہر چلی ہے،ہماری پوری زندگی میں کبھی مسلمانوں پر اس طرح کے زہریلے اور نفرت بھرے حملے نہیں کیے گئے۔ نفرت ہر جگہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی عام بندہ یا پھیری والا بولے تو چلو گوارا بھی ہو جائے۔لیکن بی جے پی کے رہنما سُوریہ اور دیگر انتہا پسندوں نے جو شرمناک زبان استعمال کی ہے، وہ قابل مذمت ہے۔ ہمارے ملک میں بھی نسل پرستانہ خیال کے لوگ موجود ہیں۔لیکن جس طرح ہمارے رسول اور مذہب کو گالیاں دی گئیں، اس سے ہمارے دانشور طبقے پر کافی اثر پڑا ہے۔ کویت ، اومان ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بھی عوام میں بہت اشتعال ہے۔ لوگوں کی جانب سے مہم چلائی جا رہی ہے کہ ہم ہندوستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔وہ ہمیں دُکھ پہنچا رہے ہیں اور ہمیں تصویریں دیکھنے کو مل رہی ہیں جن میں مسلمانوں اور دلتوں کو سڑکوں پر مار پیٹ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔یہاں تک کہ خلیجی ممالک کے سیکولر لوگ بھی بہت پریشان ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہم ہندوستانیوں سے اب مختلف طرح کا برتاؤ کریں گے۔ناراض عرب پوچھ رہے ہیں کہ بھارتی عرب ممالک میں آکر پیسے کماتے ہیں اور پھر اسی پارٹی کو چندہ دیتے ہیں جو مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ ہندوستان کے دانشور پردہ ڈالتے ہوئے لکھ رہے ہیں کہ نہیں جی، عرب ممالک کے حکمران شیخ ہمارے ساتھ ہیں۔اگرچہ خلیجی ممالک میں بادشاہت ہے مگر عوامی رائے کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ لوگ بہت ناراض ہیں۔
ہم نے ماضی میں ہندوستان کو ایک عظیم ملک کے طور پر دیکھا ہے۔ لیکن جو کچھ اب مسلمانوں کے بارے میں گالم گلوچ اور تشدد ہو رہا ہے، یہ کبھی بھارت کا مزاج نہیں رہا ہے۔ ایک طرف سے تو بھارت کے ہندو انتہا پسند خلیجی ممالک کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں اور دوسرے طرف امریکی انڈین بھی ہمیں سنا رہے ہیں کہ آپ لوگ (خلیجی ممالک) ہمارے بغیر نہیں چل سکتے۔خالد المینا نے کہا کہ میرے ایک عربی دوست نے بتایا کہ اسے ٹویٹر پر کسی ہندو انتہا پسند نے پیغام دیا ہے کہ بھارت اور اسرائیل مل کر سعودی عرب پر قبضہ کر لیں گے۔
سڑکوں کے غنڈے ہمارے خلاف کچھ بولیں تو کوئی بات نہیں۔ مگر پڑھے لکھے ہندو، ٹیچرز اور پروفیسرز تک بھی ہمارے خلاف شرمناک زبان استعمال کر رہے ہیں۔ میں ایک لبرل آدمی ہوں مگرمیں بھی اب کسی بھارتی کے ساتھ کام کرنا پسند نہیں کروں گا۔بھارتی ہندو دُبئی پر پانچ منٹ میں قبضہ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔میرے ایک سیکولر عربی دوست نے بھی کہا ہے کہ وہ آئندہ کسی ہندو کو نوکری پر نہیں رکھے گا۔سعودی عرب کی بھارت میں بہت بڑی انویسمنٹ ہے۔ امبانی کمپنی کے ساتھ بھی بڑی تجارتی شراکت داری کی گئی ہے۔ میں اب کے ہندوستان کو دیکھتا ہوں اور صاف صاف کہتا ہوں کہ یہ ایک فاشسٹ ملک ہے۔ لیکن جو قتل عام اور توڑ پھوڑ ہو رہی ہے، وہ قابل برداشت نہیں ۔