ممبئی(این این آئی)بھارتی صوبہ مہاراشٹر کے پال گھر میں دو ہندوسادھووں اور ان کے ڈرائیور کے ہجومی قتل کو مذہبی رنگ دینے کی بعض ہندو شدت پسند تنظیموں اور جماعتوں کی کوشش بظاہر ناکام ہوگئی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انیل دیشمکھ نے قتل کے سلسلے میں گرفتار 101 افراد کی فہرست جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ فہرست بالخصوص ان کے لیے جاری کی جارہی ہے جو اس واقعے کو مذہبی رنگ دینے میں مصروف ہیں۔
اس قتل میں کوئی مسلمان شامل نہیں ہے۔انیل دیش مکھ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ پال گھر واقعے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سیاست کرنے کا وقت نہیں بلکہ کورونا وائرس سے مل کر لڑنے کا ہے انہوں نے بتایا کہ ایک اعلی پولیس افسر کی قیادت میں اس واقعے کی تفتیش شروع کردی گئی ہے۔واضح رہے کہ سادھووں کے قتل کو مذہبی رنگ دینے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ کئی رہنماوں نے سوشل میڈیا پر فرضی ویڈیو ڈال کر عوام کو گمراہ کرنے اور اشتعال دلانے کی کوشش کی۔ بعض نیوز چینلوں نے بھی آگ بھڑکانے کی کوشش کی۔ لیکن جب مسلمانوں کو اس واقعہ میں ملوث کرنے کی کوشش ناکام ثابت ہوگئی تو مسیحی مشنریوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔ یہ الزام لگایا گیا کہ مسیحی اس قبائلی علاقے میں ایک عرصے سے تبدیلی مذہب کی تبلیغ کررہے ہیں۔ بعد میں بائیں بازو کی جماعتوں پر بھی الزام عائد کی گئی۔دلچسپ امر یہ ہے کہ پال گھر ضلع کے گڈا چنچلے نامی جس گاوں میں یہ واقعہ پیش آیا وہاں کے بلدیاتی ادارے پر پچھلے دس برس سے بی جے پی کا قبضہ ہے۔ بی جے پی کی چترا چودھری وہاں کی سرپنچ ہیں۔