نئی دہلی(این این آئی)معروف بھارتی مصنفہ اور سیاسی کارکن ارون دتی رائے نے کہاہے کہ حکومت اکثریتی ہندوئوں اور اقلیتی مسلمانوں کے مابین کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے اور بھارت میں مسلمانوں کے لیے صورت حال نسل کشی کی طرف بڑھ رہی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق جرمن ریڈیو کو انٹرویومیں بھارتی مصنفہ نے خبردار کیا کہ اس وقت پوری دنیا میں پھیل چکی کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں بھارت میں اس وبائی مرض کی آڑ میں جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔
اس پر پوری دنیا کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ارون دتی رائے نے کہاکہ بھارت میں کووِڈ انیس کا مرض اب تک کسی حقیقی بحران کی وجہ نہیں بنا۔ اصل بحران تو نفرت اور بھوک کا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک بحران ہے، جس سے قبل دہلی میں قتل عام بھی ہوا تھا۔ قتل عام، جو اس بات کا نتیجہ تھا کہ لوگ شہریت سے متعلق ایک مسلم مخالف قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس وقت بھی جب ہم یہ گفتگو ر ہے ہیں، کورونا وائرس کی وبا کی آڑ میں بھارتی حکومت نوجوان طلبہ کو گرفتار کرنے میں لگی ہے۔ وکلا، سینیئر مدیران، سیاسی اور سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے خلاف مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں اور ان میں سے کچھ کو تو حال ہی میں جیلوں میں بند بھی کیا جا چکا ہے۔ مصنفہ ارون دتی رائے نے کہاکہ آر ایس ایس نامی پوری تنظیم جس سے وزیر اعظم مودی کا بھی تعلق ہے اور جو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے پیچھے فعال اصل طاقت ہے، وہ تو عرصے سے یہ کہتی رہی ہے کہ بھارت کو ایک ہندو ریاست ہونا چاہیے۔ اس کے نظریہ ساز بھارتی مسلمانوں کو ماضی کے جرمنی میں یہودیوں سے تشبیہ دے چکے ہیں۔ جس طرح بھارت میں کووِڈ انیس نامی بیماری کو استعمال کیا جا رہا ہے، وہ طریقہ کافی حد تک ٹائیفائیڈ کے اس مرض جیسا ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے یہودیوں کو ان کے مخصوص رہائشی علاقوں میں ہی رہنے پر مجبور کیا تھا۔ میں بھارت میں عام لوگوں اور دنیا بھر کے انسانوں کو یہی کہوں گی کہ وہ اس صورت حال کو بہت ہلکے پھلکے انداز میں نہ لیں۔