منگل‬‮ ، 24 دسمبر‬‮ 2024 

18ویں ترمیم سے ریاست کے اندر ریاست قائم ہو گئی، جب تک یہ کام نہیں ہوگا حکومت کوئی منصوبہ شروع نہیں کر سکتی، وسیم اختر کے چونکا دینے والی باتیں

datetime 6  جنوری‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کرا چی (آن لائن) میئر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ 18ویں ترمیم سے ریاست کے اندر ریاست قائم ہو گئی، سندھ حکومت نے تمام اختیارات اپنے پاس رکھ لئے اور جو اختیارات کونسلر کے ہونے چاہئیں وہ سندھ حکومت کا وزیر استعمال کر رہا ہے۔ شہر میں میگا منصوبے بلدیہ کراچی کا اختیار ہے، کے ایم سی کونسل کی منظوری کے بغیر وفاقی اور صوبائی حکومت کوئی منصوبہ شروع نہیں کر سکتی مگر طاقت کی بنیاد پر اختیارات سے تجاوز اور دستور پاکستان کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ایم کیو ایم کو جتنی طاقت دی وہ کسی اور کو نہیں ملی مگر ہم اس وقت ایسی پالیسیاں نہیں بنا سکے جن سے عوام کو فائدہ ہوتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز(CPNE) کے ایڈیٹرز کلب میں اخبارات کے ایڈیٹروں اور مالکان سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کی پیشکش پر ان کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہیں مگر اس سے پہلے پیپلزپارٹی لوکل حکومت کے نظام کو درست کرے،ٹرانسپورٹ نظام ٹھیک کرے،عملی اقدامات ہوں گے تب ہی تعاون کے بارے میں سوچا جائے گا،میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے بلدیاتی امور میں مداخلت کو کراچی کے مفاد میں برداشت کر رہا ہوں مگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں، آئین اور ایس ایل جی اے 2013ء کی کھلی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی 60 فیصد زمین وفاق اور 30 فیصد صوبائی حکومت کے کنٹرول میں ہے، یہ واحد شہر ہے جہاں ڈیڑھ درجن سے زائد ادارے بلدیاتی خدمات فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں، اس صورت حال میں شہر کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی ٹیکسز حکومت وصول کرتی ہے جب کہ بلدیہ کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں 6 کروڑ روپے کاشارٹ فال ہے،تین کروڑ آبادی والے شہر کے مسائل کون حل کرے گا۔ان اختیارات کے ساتھ آئندہ بلدیاتی انتخابات کرانا وسائل ضائع کرنے کے مترادف ہے۔میئر کراچی نے کہا کہ اب توقع ہے کہ چیف جسٹس پاکستان میری پٹیشن پر کارروائی شروع کریں گے۔

اس نظام کی مضبوطی کیلئے گزشتہ تین سال سے کوشش کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لئے معاہدہ ہوا تھا مگر متعدد اجلاس ہونے باوجود ہم ابھی تک تین سال پہلے والی پوزیشن پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بلاول بھٹو زرداری سے بھی درخواست کی کہ وفاقی حکومت کا انتظار چھوڑ کر سندھ حکومت شہریوں کے بنیادی مسائل پر توجہ دے،سیوریج کی خراب صورتحال سے شہر میں بیماریاں پھیل رہی ہیں، کے ایم سی کے اسپتال مخیر حضرات کے عطیات پر چل رہے ہیں۔

کراچی کے عوام کے ساتھ یہ زیادتی کب تک ہوتی رہے گی۔ میئر کراچی نے کہا کہ میئرمنتخب ہونے کے بعد کراچی کے مسائل حل کرنے کے لئے مشترکہ کوششوں اور تعاون کے لئے ہر سیاسی جماعت کے پاس گیامگر کسی نے تعاون نہیں کیا، کراچی کے مسائل پر کوئی سنجیدہ نہیں، عوامی ٹرانسپورٹ کی صورتحال بہت خراب ہے، 12 سال میں یہ حکومت ایک بس کا اضافہ نہیں کر سکی۔ انہوں نے کہا کہ جتنی طاقت اللہ نے ایم کیو ایم کو دی تھی اس کے مطابق ہم فائدہ نہ اٹھا سکے، ایسی پالیسیاں نہیں بن سکیں جن سے لوگوں کو فائدہ ہوتا،

ہمیں پرویزمشرف کے دور میں جی ٹی ایس بنانا چاہیے تھا، آج کچرے سے شہر کا یہ حال نہ ہوتا۔ مگر اب سیاست کا وقت نہیں اب آگے بڑھنا اور مسائل حل کرنے پر توجہ دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں تجاوزات ختم کرنے کے لئے 15 دن دیئے گئے تھے، ایمپریس مارکیٹ سے تجاوزات ہٹانے سے سب سے زیادہ نقصان میرا ہوا، میرے ووٹر متاثر ہوئے جبکہ کے ایم سی کو چار کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ حکومت سندھ نے متبادل کا وعدہ کیا تھا مگر تعاون نہیں کیا، 14 سو سے زیادہ دکانداروں کو متبادل دے چکے، باقی کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ ہم نے رہائشی یونٹس کو خالی کرانے سے انکار کر دیا۔

سیکریٹری جنرلCPNE ڈاکٹر جبار خٹک نے کہا کہ وسائل کم ہونے کے باوجود پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے تحت منصوبے شروع کریں۔انہوں نے کہا کراچی میں طاقتور مقامی حکومت کے لئے سول سوسائٹی کے اشتراک سے سیاسی مہم شروع کرنے اور کراچی کے میئر کی حیثیت سے کراچی کے سارے عوام کو متحدہ کرنے کی ضرورت ہے، نئے بلدیاتی انتخابات سے قبل کراچی کے عوام کو مضبوط بلدیاتی نظام کے لئے متحدکریں تاکہ دلائل اور گفتگو سے یہ مسئلہ حل ہو۔ڈپٹی سیکرٹری جنرل CPNEعامر محمود نے کہا کہ دنیا کا چھٹا بڑاشہر کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے، سیوریج، پانی، عوامی ٹرانسپورٹ سمیت بے شمار مسائل ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعاون بھی نہیں کریں اور میئر کو اختیارات سے محروم کر دیا جائے تو مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں اور ایسے حالات میں عوام کہاں اور کس سے فریاد کریں۔ اس موقع پر ممبران کلب نے میئرکراچی سے مختلف امورکے متعلق سوالات بھی کئے جبکہ میئر کراچی کوکلب کی اعزازی ممبر شپ بھی دی گئی،بعدازیں ایڈیٹرز کلب کے چیئرمین حامد حسین عابدی نے میئر کراچی وسیم اختر کا شکریہ ادا کیا۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…