ہفتہ‬‮ ، 16 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

وزیراعظم کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا آئینی اختیار حاصل نہیں،یہ کام نہ ہوا تو 6 ماہ بعد آرمی چیف ریٹائر ہو جائیں گے،سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ

datetime 16  دسمبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں کہاگیاہے کہ قانون نہ بن سکا تو 6 ماہ بعد آرمی چیف ریٹائر ہو جائیں گے اور صدر پاکستان، وزیر اعظم کی ایڈوائس پر حاضر سروس جنرل کا بطور آرمی چیف تقرر کریں گے۔ پیر کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہ میں تین رکنی بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا 43 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا،

جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے اور چیف جسٹس پاکستان کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔یاد رہے کہ 28 نومبر 2019 کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے حکومت کو 6 ماہ میں قانون سازی کرنے کا حکم دیتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع دی تھی۔ جاری کئے گئے فیصلے میں کہا گیاکہ اگر 6 ماہ میں قانون نہ بن سکا توآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر 2019 سے ریٹائر تصور ہوں گے اور صدر پاکستان، وزیر اعظم کی ایڈوائس پر حاضر سروس جنرل کا بطور آرمی چیف تقرر کریں گے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہمارے سامنے مقدمہ تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت توسیع کی جاسکتی ہے؟ سماعت کے پہلے روز درخواست گزار عدالت میں پیش نہیں ہوا، درخواست گزار اگلی سماعت پر عدالت میں حاضر ہوا۔سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہماری حکومت قوانین کی ہے یا افراد کی، حکومت نے قوانین پرعمل کرنا ہے اور قانون کے تحت جنرل کے رینک کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمریا مدت ملازمت نہیں دی گئی۔تحریری فیصلے کے مطابق ادارہ جاتی پریکٹس کے تحت ایک جنرل 3 سال کی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرہوتا ہے، ہمارے سامنے مقدمہ تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاسکتی ہے، تاریخ میں پہلی مرتبہ آرمی چیف کی تعیناتی اورریٹائرمنٹ کا معاملہ سامنے آیا ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی چیف کی تعیناتی، ریٹائرمنٹ اور توسیع کی ایک تاریخ رہی ہے،

ادارہ جاتی پریکٹس قانون کا مؤثر متبادل نہیں ہوسکتا، وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع دی تاہم وزیراعظم کوایسا کوئی فیصلہ کرنے کا آئینی اختیار حاصل نہیں ہے، قانون اورآئین میں مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے مطابق فیصلے میں 28 نومبر کے شارٹ آرڈر کی مفصل وجوہات ہیں، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ جاری پریکٹس کو قانون کے مطابق کوڈیفائن کرنا ہوگا اور وفاقی حکومت مطلوبہ قانون سازی کی شروعات کرے گی۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل کے مطابق وفاقی حکومت کو قانونی سازی کے عمل کے لیے 6 ماہ چاہئیں، یہ سوچ کر کہ آرمی چیف کمانڈ، ڈسپلن، ٹریننگ اور جنگی تیاری کے ذمہ دار ہیں، معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا، شرائط وضبوابط طے کرنے کا معاملہ بھی پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے وفاقی حکومت پر چھوڑا۔آرمی چیف کی مدت ملازمت کے تفصیلی فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے برٹش چیف جسٹس سرایڈورڈکک کا 1616 کے بادشاہ جیمز کے اختیارات پر فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ

برطانوی چیف جسٹس نے کہا تھاکہ آپ چاہیں جس اعلیٰ منصب پرہوں قانون سے بالا نہیں، قانون سازی سے عوامی نمائندوں کی خودمختاری بھی ثابت ہوگی۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ہمارے سامنے مقدمہ تھا، کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت توسیع کی جاسکتی ہے، اب معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کے پاس ہے، یاد رکھیں ادارے مضبوط ہوں گے تو قوم ترقی کرے گی۔آرمی ریگولیشن پر اعلیٰ عدالت کے تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ کیس کا بنیادی سوال قانون کی بالادستی کا تھا، ہم نے آرٹیکل 243 کے اسکوپ کی وضاحت کا معاملہ بھی پارلیمنٹ اور حکومت پر چھوڑا،

جنرل قمرجاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف موجودہ تعیناتی کا دارومدار مذکورہ قانون سازی پر ہوگا، یہ قانون سازی اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کے مطابق چھ ماہ میں کی جائے گی۔تحریری فیصلے کے مطابق آرمی چیف کی آئینی مدت کو مکمل طور پر بے ضابطہ نہیں چھوڑا جا سکتا، اگر آرمی ریگولیشنز آرمی ایکٹ سے اختیارات نہیں لیتیں تو قانون سے ماورا ہونگی، ان اصولوں کی روشنی میں آرمی ریگولیشنز کا جائزہ لینا ہوگا، اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مناسب قانون سازی سے ریگولیشنز میں سے ان نقائص کو نکالے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی ریگولیشنز پر مہر لگی ہے کہ یہ ممنوع ہیں،

آرمی ریگولیشنز پر لکھا ہے یہ دستاویز پریس یا کسی غیرمتعلقہ شخص کو نہیں دی جاسکتی، پارلیمنٹ کے قانون اور ماتحت قوانین عوامی دستاویزات ہیں، صرف دفاعی قوتوں، دفاعی تنصیبات اور قومی سیکیورٹی کے ریکارڈ سے متعلق استثنا ہے اور یہ پابندی آرمی قوانین سے متعلق نہیں ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ یہ بات اہم ہے کہ جہاں معلومات ہوگی اور بحث ہوگی وہیں حل نکلیں گے، اگر آرمی ریگولیشنز تک عوام کو پہلے ہی رسائی حاصل ہوتی تو حل پہلے نکل آتا، اس لیے ہر قانون سازی متعلق معاملات تک عوام کی رسائی ہونی چاہیے۔تحریری فیصلے کے مطابق آرمی ایکٹ 1952 آئین کی شق 243 کلاز 3 کے مطابق

فوج کے بنیادی دھانچے کی ترویج پرناکافی ہیں، یہ قانون فوج میں کمیشن دینے، آرمی سروس کے قواعد وضوابط فراہم نہیں کرتا، آرمی ایکٹ کمیشنڈ افسران کی مدت ملازمت اور توسیع پر ضروری معلومات نہیں دیتا، آرمی چیف کی تنخواہ اور مراعات کا فیصلہ بھی صدر پاکستان کرتا ہے اور قانون میں آرمی چیف کی کوئی مدت نہیں ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ 3 سال کی مدت ملازمت فوج کی روایت ہے جسے قانونی حیثیت حاصل نہیں، قانون کی عدم موجودگی میں غیر یقینی ختم کرنے کے لیے اس روایت کا اطلاق کیا جا سکتا ہے، قانون میں جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی گنجائش موجود نہیں، ادارے میں جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی باقاعدہ روایت موجود نہیں۔فیصلے کے مطابق جنرل باجودہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی وزارت دفاع کی سمریوں کی کوئی حیثیت نہیں،

صدر، وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی جانب سے دوبارہ تعیناتی، توسیع اور نئی تعیناتی بے معنی ہے، جنرل باجوہ کی مدت ملازمت، توسیع قانون کی عدم موجودگی میں بے نتیجہ ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ اگر قانون نا بن سکا تو 6 ماہ میں جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہو جائیں گے، اگر 6 ماہ تک ایسا نا ہو سکا تو صدر نیا آرمی چیف مقرر کریں گے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تفصیلی فیصلے کے ساتھ اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ وہ ساتھی جج سید منصور علی شاہ کے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتے ہیں، مخصوص تاریخ کے تناظر میں آرمی چیف کاعہدہ کسی بھی عہدے سے زیادہ طاقتور ہے، آرمی چیف کا عہدہ لامحدود اختیار اور حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔اضافی نوٹ میں چیف جسٹس نے کہا کہ غیرمتعین صوابدید خطرناک ہوتی ہے، آرمی چیف کے عہدے میں توسیع، دوبارہ تقرری کی شرائط و ضوابط کا کسی قانون میں ذکر نہ ہونا تعجب کا باعث تھا۔چیف جسٹس نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ آئین کے تحت مسلح افواج سے متعلق صدر کے اختیارات قانون سے مشروط ہیں۔

موضوعات:



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…