اسلام آباد (این این آئی) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے اعلی عدالتوں کے ڈریس کوڈ منسوخی کا بل منظور کر لیا جس کے تحت جنرل ضیاء کے دور میں عدالتوں کی ڈریس کوڈ کا اختیار وفاقی حکومت کو دے دیا گیا جبکہ سید نوید قمر نے کہاہے کہ حکومت اسمبلی کا اجلاس بلائے گی تو بل پاس ہو گا،ایک بل پاس ہورہا ہے، تو بل کو تو غلط انداز میں متنازع کیوں بنا رہے ہیں،ہم آرڈیننس کی حمایت نہیں کر سکتے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس
چیئرمین ریاض فتیانہ کی زیر صدارت ہوا جس میں وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم بھی شریک ہوئے۔ اجلا س میں عدالتوں میں ڈریس کوڈ بل پر بحث کی گئی۔وزیر قانون نے کہاکہ میری چیف جسٹس سے اس حوالے سے گفتگو ہوئی، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت کی صوابدید ہونی چاہیے کہ لباس کیسا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ جنرل ضیاء کا یہ جو آرڈر اگر ختم کردیا جاتا تو یہ واپس عدلیہ کے پاس چلا جاتا۔ انہوں نے کہاکہ جہاں تک ڈریس کوڈ پابندی کی بات ہے ہم اس اختیار کو چھوڑ رہے ہیں، ہم اس حوالے سے آرڈیننس لا رہے ہیں۔ سید نوید قمر نے کہاکہ آرڈیننس لانے کی کیا ضرورت ہے جب یہاں سے پاس ہوجائے گا وزیر قانون نے کہاکہ اللہ آپ کی زبان مبارک کرے لیکن ہر کوئی آپ کی طرح نہیں سوچتا۔ وزیر قانون نے سید نوید قمر سے مکالمہ کیا کہ آپ بہت فراخ دل آدمی ہیں۔سید نوید قمرنے کہاکہ آپ اسمبلی بلائیں گے تو یہ پاس ہوگا۔وزیر قانون نے بتایاکہ ہم اس آرڈیننس کو اسمبلی میں لائیں گے آپ پاس کروا دئیے گا۔دور ان سماعت اعلیٰ عدالتوں کے ڈریس کوڈ منسوخی کا بل قائمہ کمیٹی نے منظور کر لیا۔جنرل ضیاء کے دور میں عدالتوں کی ڈریس کوڈ کا اختیار وفاقی حکومت کو دے دیا گیا۔ وزیر قانون نے کہاکہ جب وفاق چاہتا عدلیہ کا ڈریس کوڈ تبدیل کر دیتا،
کبھی جج کو شیروانی پہنا دیتے تھے اور کبھی وگ لگا دیتے تھے، موجودہ چیف جسٹس آصف نے کہا کہ عدلیہ کا کہنا ہے کہ ڈریس کوڈ کا اختیار انکے پاس ہونا چاہیے،اب اعلی عدالتوں کے ڈریس کوڈ منسوخی کے حوالے سے آرڈینس لا رہے ہیں۔سید نوید قمر نے عدلیہ ڈریس کوڈ بل پر آرڈینس لانے پر ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ حکومت اسمبلی کا اجلاس بلائے گی تو بل پاس ہو گا،ہم عدلیہ ڈریس کوڈ بل کی حمایت کر رہے ہیں، اس کے باوجود اپ اس حوالے سے ایک آرڈینس لا رہے ہیں،
ایک بل پاس ہورہا ہے، تو بل کو تو غلط انداز میں متنازع کیوں بنا رہے ہیں،ہم آرڈیننس کی حمایت نہیں کر سکتے۔فروغ نسیم نے کہاکہ قومی اسمبلی تو عدلیہ ڈریس کوڈ بل منظور کر دے گی، سینیٹ نہیں کرے گی، اس لیے آرڈینس لانا پڑے گا،آئین آرڈینس لانے کی اجازت دیتا ہے،آرڈینس جاری کرنا اگر غیر جمہوری ہوتا تو آئین میں یہ شامل نہ ہوتا، یا اٹھاوریں آئینی ترمیم میں آرڈینس کے اجراء کو مسترد کر دیا جاتا،نیب قانون میں ترامیم لا رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر اپوزیشن کو نیب قانون پر
اعتراض ہوا تو ہمیں بتا دیجیے گا، ہم آرڈینس کی صورت میں لے آئیں گے،ایمرجنسی اور گورنر رول آخری اپشن ہوتا ہے، لیکن آئین میں یہ اختیارات دیے گئے ہیں۔ سید نوید قمر نے کہاکہ اس دفعہ حکومت کیوں ایسا کر رہی ہے کہ کسی چیز پر اتفاق رائے نہیں کرتی اور بلڈوز کیا جا رہا ہے۔عالیہ کامران نے کہاکہ ججوں کا لباس ایک نان ائشو ہے، جواب کو خوش کرنے کیا جا رہا ہے۔ چیئرمین کمیٹی ریاض فتیانہ نے کہاکہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کر دی،جو قانون سازی کے بلز پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں۔