کراچی(این این آئی) انڈس موٹر کمپنی (آئی ایم سی) نے اعلان کیا ہے کہ پیداوار میں سُست روی کے باوجود کسی بھی ایمپلائی کو نوکری سے نہیں نکالا جائے گا۔آئی ایم سی نے ستمبر کے آخری 15 دنوں میں کام بند رکھنے کے بعد یکم اکتوبر سے 50 فیصد پیداوار کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ آئی ایم سی کے ترجمان نے کہا، ”مُلک معاشی سُست روی سے گزر رہا ہے اور مارکیٹ کی مجموعی حالت بدستور غیرمستحکم ہے۔ یہ بلاشبہ ایک مشکل صورتحال ہے جس کے اہم ترین عوامل روپے
کی قدر میں کمی، کار فائنانسنگ میں کمی، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹیز (FED) میں اضافہ اور پیداواری لاگتوں میں اضافہ ہیں۔“انہوں نے مزید کہا، ”12 ماہ کے عرصے میں روپے کی قدر میں 31.6 فیصد کمی ہوئی ہے۔ مزید براں، حکومتِ پاکستان نے 7 فیصد ACD، تمام درآمدات پر 3 فیصد اضافی سیلز ٹیکس اور 2000 سی سی اور اس سے بڑی گاڑیوں پر 7.5 فیصد FED عائد کر دیا ہے۔اس کے علاوہ مقامی سطح پر تیار کردہ گاڑیوں پر 2.5 فیصد اور 5 فیصد نئی FED بھی ہے۔ ان تمام عوامل سے گاڑیوں کا شعبہ متاثر ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں سیلز میں بہت کمی ہوئی ہے۔ کسی گاڑی کی کُل لاگت کا 40 فیصد حصّہ حکومتی ٹیکسوں اور محصولات پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ ٹیکس وصولی کی شرح میں اضافے سے گاڑیوں کی سیلز اور مجموعی ٹیکس وصولی متاثر نہیں ہوگی؛ حقیقت یہ ہے کہ سیلز میں کمی کے نتیجے میں گاڑیوں کے شعبے سے حاصل ہونے والے ٹیکس میں بھی کمی ہوگی۔“”لیکن ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ مشکل حالات کے باوجود ملازمتیں معطّل نہیں کریں گے۔ اس مالی بوجھ کو ہم خود برداشت کریں گے“، انہوں نے کہاپاکستان میں یہ عمومی سوچ پائی جاتی ہے مقامی سطح پر تیار کردہ گاڑیاں بتدریج مہنگی ہو گئی ہیں اور ان کی افادیت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ اصل میں گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا ہے
بلکہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے مطابق قیمتوں میں ترمیم کی گئی ہے۔ بلکہ تیارکنندگان نے تو قیمتوں میں کمی کی ہے لیکن بظاہر یوں لگتا ہے کہ قیمتیں بڑھ گئی ہیں کیونکہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے نتیجے میں صارفین زیادہ روپے دے رہے ہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ آئی ایم سی نے ہر نئے ماڈل کے ساتھ مقامی سطح پر تیاری کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا ہے، گاڑیوں کی خصوصیات میں اضافہ کیا ہے اور
ہر ورکنگ دن 200 ملیَن روپے سے زائد مالیت کے مقامی پُرزہ جات حاصل کر کے ڈالر کے لحاظ سے لاگت میں کمی کی ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ 1993 ء میں کرولا کی قیمت 19,630 ڈالر بمع 15 فیصد جنرل سیلز ٹیکس تھی،اور ایک ڈالر 27 روپے کے برابر تھا۔ آج، 2019 ء میں، وہی کرولا 17 فیصد سیلز ٹیکس اور 5 فیصد FED کے باوجود 15,618 ڈالر میں دستیاب ہے جبکہ ایک ڈالر 160 روپے کے برابر ہے۔ اس کا مطلب ہے کم قیمت پر بہتر خصوصیات۔انہوں نے کہا کہ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران آئی ایم سی نے مقامی سطح پر تیاری میں اضافہ کیا ہے اور بھاری ٹیکسوں اور روپے کی قدر میں کمی کے بوجھ کو خود برداشت کیا ہے تاکہ اپنے قابلِ قدر صارفین کو معیاری گاڑیاں فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھ سکے۔