واشنگٹن(آن لائن)شام پر ترک حملے کے بعد امریکا نے ایکشن لیتے ہوئے ترکی پر پابندیاں عائد کردیں جب کہ صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ وہ ترکی کی معیشت کو برباد کرنے کیلیے مکمل تیار ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکا کی جانب سے ترکی کی وزارت دفاع اور توانائی پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
جب کہ ترکی کے دو وزرا اور تین سینئر عہدیداروں پر بھی پابندی لگادی گئی ہے۔میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ترکی پر عائد کی گئی پابندیاں بہت سخت ہیں جو اس کی معیشت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوں گی۔امریکی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ترکی کی وزارت دفاع اور توانائی کے خلاف کارروائی کی گئی ہے جب کہ ساتھ ہی وزیر دفاع، توانائی اور داخلہ کے خلاف بھی ایکشن لیا گیا ہے۔امریکی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ترک حکومت کی کارروائی سے بے گناہ شہری خطرے میں ہیں اور خطہ عدم استحکام کا شکار ہورہا ہے، اس کے علاوہ داعش کو شکست دینے کی مہم بھی کمزور پڑررہی ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی نائب صدر مائیک پینس نے بتایا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب اردوان کو فون کرکے فوری طور پر جنگ بندی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔امریکی نائب صدر کا کہنا تھا کہ وہ جتنی جلدی اور جتنا ممکن ہوا، خطے کا دورہ کریں گے۔امریکا کی جانب سے ترکی کو خبردار کیا گیا ہے کہ ترکی کے سیز فائر کیے جانے تک پابندیوں جاری رہیں گی اور ان میں مزید سختی کی جائے گی۔امریکی نائب صدر نے ترکی پر زور دیا کہ فوری طور پر تشدد روک کر ترکی اور شام کی سرحد سے متعلق مسائل پر مذاکرات کے ذریعے ایک طویل مدتی معاہدہ کیا جائے۔
مائیک پینس کا مزید کہنا تھا کہ امریکا نے ترکی کو شام پر لشکر کشی کے لیے کوئی گرین سگنل نہیں دیا تھا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق شامی افواج شمال مشرقی علاقے میں داخل ہوچکی ہیں جس کے بعد ان کا ترک فورسز سے تصادم ہوسکتا ہے۔ترکی کا کہنا ہیکہ اس کے حملے کا مقصد کرد فورسز کو سرحدی علاقے سے پیچھے دھکیلنا ہے اور ایک سیف زون قائم کرنا ہے۔دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ جلد ترکی کے سابق اور موجودہ حکومتی عہدیداروں سمیت ترکی کی عدم استحکام پیدا کرنے والی کارروائیوں میں شامل کسی بھی شخص پر پابندیوں کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کریں گے۔
امریکی صدر کا کہنا تھاکہ اسٹیل ٹیرف کو واپس 50 فیصد تک لایا جائے گا، اس کے علاوہ امریکا وزارت تجارت کی سربراہی میں ترکی سے 100 بلین ڈالر کی ٹریڈ ڈیل پر بھی مذاکرات فوری روک دیگا۔ٹرمپ نے مزید کہا کہ ایگزیکٹوآرڈر سے امریکا کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث اور سیز فائر میں رکاوٹ ڈالنے والوں پر سخت پابندیاں عائد کرسکے۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ شام میں ہونے والی وحشیانہ کارروائی میں سہولت کاری اور مالی معاونت کرنے والوں کو ہدف بنانے کے لیے امریکا انتہائی سختی سے معاشی پابندیوں کا نفاذ کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ترک رہنما مسلسل اس راستے کو اختیار کرتے ہیں تو میں اس کی معیشت کو برباد کرنے کے لیے مکمل تیار ہوں۔خیال رہے کہ کرد ملیشیا آزاد ملک کے قیام کیلئے سرگرم ہے، عراق میں کردستان کے نام سے ایک خودمختار علاقہ کردوں کو دیا گیا ہے تاہم وہ شام اور ترکی کے کچھ علاقوں کو بھی کردستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ ترکی کرد ملیشیا کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔2014 میں امریکی صدر باراک اوباما نے پہلی مرتبہ داعش کے خلاف شام میں فضائی آپریشن شروع کیا اور 2015 کے اواخر میں اپنے 50 فوجی بھیج کر شامی خانہ جنگی میں باضابطہ طور پر حصہ لیا۔امریکی فوجی داعش کے خلاف لڑنے کیلئے شامی کردش ملیشیا اور جنگجوؤں کو تربیت دیتے رہے ہیں۔20 دسمبر 2018 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں داعش کو شکست دینے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔