سرینگر (این این آئی)مقبوضہ کشمیر میں پیر کو مسلسل 71 ویں روز بھی وادی کشمیراور جموںکے مسلم اکثریتی علاقوں کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، فوجی محاصرہ بدستور جاری اور مواصلاتی ذرائع مسلسل معطل ہیں۔ کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق اگرچہ قابض انتظامیہ نے لینڈ لائن اور پوسٹ پیڈ موبائل فون بحال کرنے کا اعلان کیاہے تاہم سخت ترین پابندیوں اور قدغنوں کی وجہ سے لوگوں کو
معمولات زندگی انجام دینے میں اب بھی شدید مشکلات کا سامناہے ۔ تمام بازاربند اور سڑکوں پر ٹریفک معطل ہے ۔چند افسروں کے سو ا کوئی سرکاری دفتروں یا تعلیمی اداروں میں جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔صبح اور شام کے وقت کچھ دکانیں چند گھنٹوں کے لیے کھلتی ہیں اورکہیں کہیں سڑکوں پر ٹھیلے والے روزی روٹی کمانے کی تگ ودو کرتے نظر آرہے ہیں لیکن اسے عام لوگوں کی ضروریات پوری نہیں ہوسکتیں۔ لوگ بھارتی قبضہ اور 5 اگست کے یکطرفہ اقدامات کے خلاف بطور احتجاج دن بھر اپنی دکانیں بند رکھتے ہیں اوردفاتر میں نہیں جاتے ہیں۔ بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کو منانے کے لیے بھارت سے بھیجے گئے چند صوفی مولویوںکی حالت اس وقت مضحکہ خیز بن گئی جب سرینگر کی درگاہ حضرتبل میں ان کا استقبال بھارت مخالف نعروںسے کیاگیا اور انہیں واپس جانے پر مجبورکیاگیا۔ بھارتی سپریم کورٹ کی سینئر وکیل نیتیا راما کرشنن اوردہلی سکول آف اکنامکس میں سوشیالوجی کی پروفیسر نندنی سندر نے 5سے9اکتوبر تک مقبوضہ کشمیر کے دورے کے بعد ایک رپورٹ میں کہاہے کہ وادی کشمیر میں ایک شخص بھی مودی حکومت کے 5اگست کے فیصلے سے خوش نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ کشمیری سول نافرمانی کے ذریعے اس اقدام کی مزاحمت کررہے ہیں اورتقریباً ہرایک کشمیری بھارت سے آزادی چاہتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند اور سول سوسائٹی کے ایک مشترکہ وفدنے جس نے 7سے 10اکتوبر تک وادی کشمیر کا دورہ کیا ، مسلسل لاک ڈائون کی وجہ سے کشمیریوں کو درپیش ذہنی دبائو اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا معاملہ اٹھایا ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ دہلی کے ریٹائرڈ پروفیسر اور سماجی کارکن وپن کمار تریپاٹھی نے صرف دہلی میں ایک لاکھ پمفلٹ تقسیم کئے ہیں جس کا مقصد لوگوں کو کشمیر کی صورتحال کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ ’’کشمیری تکلیف میں ہیںاور باقی ملک جشن منا رہا ہے‘‘کے زیر عنوان پفلٹوں میں تریپاٹھی نے کشمیریوں کے ساتھ روارکھے جانے والے ظالمانہ سلوک پر سوال اٹھایاہے۔