کراچی(آن لائن)نمرتا ہلاکت کیس میں مہران ابڑو اور علی شاہ کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے سامنے پیش کیا گیا۔تفصیلات کے مطابق آج زیر حراست دونوں افراد کو جوڈیشل انکوائری افسر کے روبرو پیش کیا گیا۔جوڈیشل انکوائری افسر نے نمرتا کے دونوں دوستوں کے بیانات قلمبند کر لیے ہیں۔
علی شان نے اپنے بیان میں کہا کہ نمرتا کی ہلاکت سے قبل جب آخری بار بات ہوئی تو میں نے ان کو میسج کیا اور لائبریری میں آنے کو کہا۔تاہم انہوں نے مجھے بائے کا میسج لکھا۔اس کے بعد میں نے کئی کالز کیں لیکن نمرتا سے رابطہ نہ ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے اور مہران نے کبھی بھی نمرتا کا اے ٹی ایم کارڈ استعمال نہیں کیا۔اگر ہم کبھی کھانا بھی کھاتے تھے تو سب لوگ پیسے شئیر کرتے تھے۔علی شان نے مزید کہا کہ مہران سے شادی کے معاملے پر نمرتا کے والدین نے ملنے سے منع کر دیا تھا۔نمرتا کے والدین نے اسے ہم سے ملنے سے بھی منع کیا تھا اور نمرتا گھر سے باہر ہم سے ملاقات کرتی تھی۔خیال رہے کہ جمعرات کے روز بی بی آصفہ ڈینٹل کالج لاڑکانہ کی طالب علم ڈاکٹر نمرتا چندانی کے موت کے سلسلے میں وزارت داخلہ کی جانب سے عدالتی تحقیقات کی درخواست پر ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاڑکانہ کی سربراہی میں جڈیشل انکوائری مقرر کی، جو گذشتہ پانچ روز سے یونیورسٹی انتظامیہ خواہ دیگر سے حلف نامے لینے کے بعد بیانات ریکارڈ کرائے جا رہے ہیں، جس کے تحت جمعرات کے روز مزید چھ افراد نے اپنے بیانات جڈیشل انکوائری کے سامنے ریکارڈ کرائے ہیں، جبکہ بقایا نو افراد کل جمع کے روز بیانات دیں گے۔
دوسری جانب اتنے روز گزر جانے کے باوجود نمرتا کے ورثا میں سے کسی فرد نے بیان ریکارڈ نہیں کرایا ہے، اور نہ ہی پولیس انتظامیہ کے متعلقہ افسران کے بیانات لیے گئے ہیں۔ دوسری جانب لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی جانب سے میڈیکل رپورٹ بھیج دی گئی جو نہ تو اسٹاف اور نہ ہی میڈیکل لیگل افسران نے وصول کی۔