اسلام آباد (این این آئی) پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے دس ہزار اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی کی اطلاعات پر سخت تشویش کااظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر ہم جنوبی ایشیا میں امن و استحکام چاہتے ہیں تو مسئلہ کشمیر جیسی رکاوٹ کو دور کرنا ہو گا،ہم مسئلہ کشمیر اور فوجیوں کی تعیناتی کے معاملہ کوکو برسلز، یورپین یونین،جرمنی فرانس ماسکو، بیجنگ اور اس طرح کی پاورز کی ساتھ اٹھائینگے، ہم افغان امن عمل میں اپنا کردار نیک نیتی سے ادا کر رہے ہیں
دوسری طرف مشرقی سرحد پر کشیدگی ہمارے لئے تشویشناک ہے،کشمیر کی تحریک جس مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اس میں حقائق کو مسخ نہیں کیا جا سکتا،افغان امن عمل کی شروعات ہوئی ہیں جس میں پاکستان اپنا مصالحانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ بدھ کو وزارت خارجہ میں قومی کشمیر کمیٹی کے چیئر مین سید فخر امام کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے شاہ محمو د قریشی نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر کی گھمبیر صورتحال کے پیش نظر پارلیمنٹ کشمیر کمیٹی کا خصوصی اجلاس چیئرمین سید فخر امام کی زیر صدارت خصوصی اجلاس وزارت خارجہ میں منعقد ہوا جس میں ہم نے کشمیر کی صورت حال اور آئندہ لائحہ عمل کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ کمیٹی میں حال ہی میں کشمیر کی صورتحال پر جونئی بین الاقوامی رپورٹس سامنے آئی ہیں ان پر بات چیت ہوئی۔ انہوں نے کہاکہ ہم افغان امن عمل میں اپنا کردار نیک نیتی سے ادا کر رہے ہیں لیکن مشرقی سرحد پر کشیدگی ہمارے لئے تشویشناک ہے۔انہوں نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح آج طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے وہ انتہائی افسوناک ہے۔ انہوں نے کہاکہ مودی حکومت نے پاکستان مخالف بیانیے پر ووٹ لئے اس لئے وہ پاکستان کے ساتھ مل بیٹھنے پر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔شاہ محمود قریشی نے کہاکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کی جانب سے 10 ہزار اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، مقبوضہ جموں وکشمیر میں سکیورٹی کی صورتحال کے مزید بگڑنے کے امکانات ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے اس ساری صورتحال کا جائزہ لیا اور اس میں جو گفتگو ہوئی اس کی روشنی میں ہم آگے بڑھیں گے۔ اس موقع پر فخر امام نے کہاکہ بھارت مقبوضہ کشمیر کی الگ آئینی حیثیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں،بھارتی حکمران کشمیر کی آئینی حیثیت سے متعلقہ شق 35 اے کو کالعدم کرنا چا رہے ہیں۔سید فخر امام نے کہاکہ ہم نے بات کی کہ صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد ہمیں پی فائیو ممالک کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں برسلز، یورپین یونین،
جرمنی فرانس ماسکو، بیجنگ اور اس طرح کی پاورز کی ساتھ اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے۔شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ اگر ہم جنوبی ایشیا میں امن و استحکام چاہتے ہیں تو مسئلہ کشمیر جیسی رکاوٹ کو دور کرنا ہو گا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ستمبر 2018 سے جولائی 2019 تک بتدریح ایسی چیزیں منظر عام پر آئی ہیں کہ دنیا پاکستان کے موقف کی تائید کرتی نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز یورپی پارلیمنٹ کے اراکین تشریف لائے اور ان سے بھی مسئلہ کشمیر اور
کشمیر کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے اور ہمارے معصوم شہری متاثر ہو رہے ہیں اور ہمیں پھر اس کا جواب دینا پڑتا ہے۔انہوں نے کہاکہ بھارت ابھی تک بات چیت کیلئے ذہنی طور پر تیار دکھائی نہیں دیتا-وزیر خارجہ نے کہاکہ ہندوستان، کشمیریوں کی خودارادیت کی تحریک کو دہشتگردی سے منسلک کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے لیکن اب حقیقت دنیا کے سامنے واضح ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کشمیر کی
تحریک جس مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اس میں حقائق کو مسخ نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہاکہ بھارت مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں لیکر گیا ہم تو آج بھی بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں۔انہوں نے کہاکہ افغان امن عمل کی شروعات ہوئی ہیں جس میں پاکستان اپنا مصالحانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم افغانستان کے حوالے سے درپیش چیلنجز سے واقف ہیں اسلئے ہم نے مسلسل کہا ہے کہ یہ مشترکہ زمہ داری ہے۔انہوں نے کہاکہ ہندوستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں
مزید دس ہزار فورس بھیجنے کی اطلاعات پر ہمیں تشویش ہے جس کو ہم ہر سطح پر اٹھائیں گے۔انہوں نے کہاکہ عوام اور پارلیمان کے اندر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاکہ انگیجمنٹ کی پالیسی سے یقینا فائدہ ہوتا ہے لیکن وفود کو تیاری کے ساتھ بھیجنے کے حامی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کیے ہیں اور انہیں تسلیم کیا گیا ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہاہ انصاف اور جبر کے دو راستے ہیں ہمارا راستہ انصاف کا ہے،حریت کی قیادت کرفیو کے ماحول میں ہیں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاکہ کشمیر پر قوم متفق تھی اور رہے گی یہ پالیسی ریاست کی ہے حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔