وزیراعظم عمران خان نے کل پیس انسٹی ٹیوٹ میں دعویٰ کیا تھا پاکستان میں میڈیا مکمل آزاد ہے‘ عمران خان نے اس سے پہلے فاکس نیوز کے انٹرویو میں بھی کہا تھا، عمران خان کا یہ دعویٰ آج کچھ گھنٹے بعد غلط ثابت ہو گیا‘ آج مریم نواز نے لاہور میں پریس کانفرنس کی لیکن پاکستان کے کسی چینل نے یہ پریس کانفرنس نہیں دکھائی‘ پریس کانفرنس کی خبر اور ٹکرز تک نہیں چلے‘
چینلز نے اس پریس کانفرنس کا اپنی اپنی ویب سائیٹس اور پیجز پر بھی بلیک آؤٹ کر دیا‘ ملک میں اگر میڈیا آزاد ہے تو پھر یہ بلیک آؤٹ کیوں ہے؟ ریاست یا حکومت کو کانٹینٹ پر اعتراض ہے تو یہ تمام سیاستدانوں کے لیے ریڈ لائینز طے کر دے‘ جو سیاستدان اس پر پاؤں رکھے‘ آپ اسے اسی جگہ روک دیں لیکن مکمل طور پر بلیک آؤٹ کرنا یہ اس آزادی رائے کی توہین ہے جس کے لیے میڈیا اور انسانیت دونوں نے بے شمار قربانیاں دیں‘ معاشرے بڑی مشکل سے اس لیول تک آئے ہیں جہاں یہ ہر قسم کی آواز سن اور سنا سکتے ہیں لیکن آزادی رائے کو یوں روک دینا یہ بنیادی حقوق کے خلاف ہے‘ حکومت کو اس بلیک آؤٹ کا نوٹس ضرور لینا چاہیے‘ آج آپ کسی کو نشانہ بنا رہے ہیں تو کل کو کوئی اور آپ کو بھی نشانہ بنائے گا‘ یہ دنیا ایک ایسی وادی ہے جس میں ہر کسی کو اس کی باز گشت ضرور سنائی دیتی ہے‘ کل عمران خان کی موجودگی میں واشنگٹن میں کیپیٹل ون ارینا میں ڈیزل ڈیزل کے نعرے لگے اور آج ان کی پارٹی چیئرمین سینٹ کے لیے حمایت مانگنے مولانا فضل الرحمن کے گھر پہنچ گئی‘ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔