اسلام آباد(آ ن لائن)امریکی سفارتخانے کی ”مشتبہ لاپتہ گاڑی“ کا معاملہ، ایک ماہ گزر جانے کے باوجود پاکستانی حکام مبینہ گاڑی کی دستاویزات اور گاڑی کا سراغ لگانے میں ناکام،جبکہ قومی سلامتی کے لئے خطرہ بننے والے افراد کے خلاف بھی کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی،دوسری جانب وزارت خارجہ نے امریکی سفارتخانے کو مزیدگاڑیاں درآمد کرنے سے روک د یاہے۔ذرائع کے مطابق وزارت خارجہ نے یہ فیصلہ امریکی سفارتخانے کی ایک ”مشتبہ لاپتہ گاڑی“ کے حوالے سے میڈیا میں
گزشتہ ماہ شائع ہونے والی خبر کے بعد کیا ہے۔اس معاملے کے حوالے سے ذرائع نے بتایا ہے امریکی سفارتخانہ سالانہ سینکڑوں گاڑیاں پاکستان درآمد کرتا ہے جن میں سے بیشتر گاڑیاں امریکی سفارتکار مشن مکمل ہونے کے بعد واپس امریکہ لے جاتے ہیں اوردیگر گاڑیاں وزارت خارجہ کی اجازت سے پاکستان میں ہی فروخت کر دیتے ہیں جبکہ ان میں چند گاڑیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ایسی ہی ایک گاڑی کے حوالے سے گزشتہ ماہ ایک خبر شائع ہوئی تھی جس میں سال 2015میں ”لاپتہ“ ہونے والی امریکی سفارتخانے کی مبینہ گاڑی اوراسکی درآمدگی کی دستاویزات سے متعلق سوالات اٹھائے گئے تھے۔2004ماڈل کی یہ ٹویوٹا کراؤن گاڑی 2015میں امریکی سفارتخانے نے درآمد کی تھی مگر اس کی درآمدگی کی دستاویزات وزارت خارجہ اور امریکی سفارتخانے کے حکام کی ملی بھگت سے غائب کر دی گئی تھیں۔دستاویزات میں وہ لیٹر بھی شامل تھا جس میں امریکی سفارتخانے کے نئے آنے والے ملازم جیک ایلن مورٹینسن کے نام پر مبینہ گاڑی کی درآمد کی اجازت طلب کی گئی تھی۔دستاویزات غائب کرنے کے عوض دفتر خارجہ کے پروٹوکول ڈیپارٹمنٹ کے افسران پر امریکی سفارتخانے نے ’ڈالروں‘کی بارش کی اور انعام کے طور پر عروسہ مظہر نامی خاتون کو امریکی سفارتخانے کے شپنگ ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت بھی دی۔اس کے علاوہ اس کیس میں ملوث امریکی سفارتخانے کے ایک ملازم شیخ زبیر کو امریکی شہریت دیکر امریکہ بھجوا دیا گیا
جبکہ اسی ڈیپارٹمنٹ کے دیگر چار ملازمین کو خصوصی مراعات سے نوازا گیااور انہیں بھی آنے والے دنوں میں امریکی شہریت دیکر امریکہ بھجوائے جانے کے امکانات ہیں۔واضح رہے کہ مبینہ گاڑی کی درآمد کو چار سال مکمل ہو چکے ہیں مگر تاحال اس گاڑی کا سراغ نہیں لگایا جا سکا جو کہ متعلقہ اداروں خصوصاً دفتر خارجہ اور کسٹمز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے کیونکہ درآمد شدہ گاڑی جسے چیک نہیں کیا گیا،اس میں ممکنہ طور پر جدید قسم کے جاسوسی کے آلات نصب ہو سکتے ہیں۔اس حوالے سے امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے بھی مؤقف دینے سے انکار کر دیا ہے۔