اسلام آباد(اے این این )الیکشن کمیشن کے سندھ اور بلوچستان سے ارکان کے تقرر کا معاملہ بند گلی میں داخل ہو گیا، جس پر حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔آئین کے تحت الیکشن کمیشن رکن کی تقرری کیلئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اتفاق رائے سے 3 نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجتے ہیں، اتفاق رائے نہ ہو تو وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر الگ الگ 3، 3 نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجواتے ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی کم از کم دو تہائی اکثریت سے 6 میں سے ایک نام کا انتخاب کرسکتی ہے، پارلیمانی کمیٹی میں مجوزہ ناموں پر ڈیڈلاک پیدا ہو جائے تو آئین خاموش ہے۔سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن ارکان کی ریٹائرمنٹ کو چھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، پارلیمانی کمیٹی نے پیر کے روز ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی جانب سے بھجوائے گئے نام مسترد کر دیئے تھے۔ پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے برابر برابر ارکان ہوتے ہیں۔وزیراعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق نے نجی خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے ممبر سندھ اور ممبر بلوچستان کی تعیناتی سے متعلق بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی ڈیڈ لاک کا شکار ہے، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین اس معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا، ڈیڈلاک کے بعد کیا کیا جائے آئین خاموش ہے، سپریم کورٹ ہمیں بتائے ان سیٹوں کو کیسے پر کیا جائے۔واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کیسندھ سے رکن عبدالغفار سومرو اور بلوچستان سے شکیل احمد بلوچ 26 جنوری کو ریٹائر ہوئے تھے، آئین کے مطابق 45 دن میں ممبران کی تقرری کرنا لازم ہے، اس سلسلے میں آئینی طریقہ کار واضح ہے جس کے مطابق ئے ارکان کی تقرری کے لئے وزیر اعظم قائد حزب اختلاف کے مشورے سے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجتے ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی اسپیکر کی جانب سے تشکیل دی جاتی ہے، جس میں 50 فیصد اراکین حکومتی بینچوں اور 50 فیصد اراکین حزب اختلاف کی جماعتوں سے ہوں گے۔ تاہم الیکشن کمیشن کے ارکان کے ناموں پر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین اس معاملے پر اتفاق رائے ہی نہیں ہوسکا۔