ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کس طرح صوبے پر چھا گئے ہیں؟

datetime 22  جون‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(نسیم شاہد) حالات اتنی تیزی سے کروٹ بدلتے ہیں کہ آج کی بات کل بھول جاتی ہے۔ کل تک کیا اپوزیشن اور کیا صحافی اس بخار میں مبتلا تھے کہ ایک اجنبی نوجوان کو پنجاب جیسے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ کیسے بنا دیا گیا ہے،یہ انہونی کیسے ہو گئی اور جو شخص بات تک نہیں کر سکتا،وہ صوبہ کیسے چلا سکتا ہے؟…… ایک موقع تو ایسا آیا کہ ہر طرف یہ افواہ پھیل گئی کہ عثمان بزدار بن کِھلے مرجھا گئے ہیں اور کپتان نے ان کی تبدیلی کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ٹاک شوز میں عثمان بزدار کی ناکامی کو حکومت کی ناکامی قرار دے کر کپتان پر تنقید بھی کی جاتی رہی،مگر صاحبو! یہ سب باتیں تو قصہ ء پارینہ بن گئیں، آج کوئی بھولے سے بھی عثمان بزدار کا نام نہیں لیتا کہ وہ کب جا رہے ہیں، کب اُن کی چھٹی ہونے والی ہے؟یوں لگتا ہے کہ اُن کے حق ِ حکمرانی کو تسلیم کر لیا گیا ہے، سب عثمان بزدار کو بھول کر دیگر ایشوز میں مصروف ہو گئے ہیں، جیسے پنجاب کی چیف منسٹری کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ویسے تو کپتان جس کی پشت پر کھڑے ہوں، وہ مضبوط ہو جاتا ہے،لیکن عثمان بزدار کو کپتان نے کئی بار سہارا دے کر کھڑا کیا۔ بار بار اُن کی مدد کو آئے اور عوام کو باور کرایا کہ انہیں ایک بہت اچھا وزیراعلیٰ ملا ہے۔ عثمان بزدار بھی دھیمے انداز میں چلتے رہے،سر نہیں اٹھایا،نہ ہی کسی کو للکارا، جو لوگ کہتے تھے پنجاب میں قیادت کا بحران پیدا ہو گیا ہے،اب وہی عثمان بزدار کو بھلائے بیٹھے ہیں۔اُن پر نظر کرم نہیں کر رہے کہ میاں آپ کس حال میں ہیں، چیف منسٹری راس آ گئی ہے یا ابھی زیر تربیت ہیں۔ بڑا شور شرابا ہوا تھا کہ پنجاب میں اقتدار کے کئی دعویدار ہیں،کہیں گورنر پنجاب محمد سرور کا نام آتا اور کہیں علیم خان کا ذکر کیا جاتا،کہیں سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کا نام گونجتا کہ اول وزارتِ اعلیٰ وہ چلا رہے ہیں،لیکن آج صرف عثمان بزدار کا نام گونج رہا ہے۔

کپتان کو بھی اب کئی دن ہوئے اِس بات کی ضرورت پیش نہیں آئی کہ عثمان بزدار کو سپورٹ فراہم کی جائے۔ عثمان بزدار آج خود عثمان بزدار ہیں،ویسے توپنجابی کی کہاوت ہے کہ”جیدے گھر دانے اوہدے کملے وی سیانے“…… عثمان بزدار کے گھر تو اقتدار کی دیوی اتری ہوئی ہے۔اقتدار کی غلام گردشوں میں رہ کر وہ غالباً بہت کچھ سیکھ گئے ہیں، صوبہ چل رہا ہے اور ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔انہوں نے جنوبی پنجاب کو بجٹ میں حصہ بھی لے کر دیا ہے، جس سے وہ پہلے محروم رہا ہے۔

وہ طب کے شعبے میں جنوبی پنجاب کو جدید علاج گاہوں کے ذریعے اعلیٰ مقام پر لانا چاہتے ہیں۔ پہلے پنجاب کے بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لئے فنڈز مختص تو کئے جاتے تھے،مگر ان کی منتقلی یہاں نہیں ہوتی تھی، بلکہ بالا بالا وہ کہیں اور چلے جاتے تھے۔ عثمان بزدار کے ہوتے ہوئے ایسا نہیں ہو گا،کیونکہ شہباز شریف کی طرح انہیں لاہور کا قلعہ مضبوط نہیں کرنا،بلکہ اُن کی اصل طاقت جنوبی پنجاب ہے، جس کے لئے کام کرکے وہ ایک منفرد مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ اس بار عمران خان لاہور آئے تو انہوں نے عثمان بزدار کے لئے اپنے پرانے خیالات نہیں دہرائے۔

اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ کپتان کو اب یقین ہو گیا ہے کہ عثمان بزدارکھیلنا سیکھ چکا ہے، اب مزید سپورٹ کی ضرورت نہیں۔ اب تو عثمان بزدار کے خیالات میں بھی جارحانہ پن نظر آتا ہے۔ مثلاً انہوں نے بڑے یقین سے کہا ہے کہ پنجاب کا بجٹ بآسانی منظور کرا لیں گے۔ کسی میں جرأت نہیں کہ بجٹ کو مسترد کرا سکے۔ یہ اعتماد اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ کوئی بہت دبنگ آدمی ہے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ اندر خانے عثمان بزدار کی کون کون مخالفت کر رہا ہے، تاہم گورنر ہاؤس اور سپیکر ہاؤس تھک ہار کر بیٹھتے نظر آ رہے ہیں۔ خاص طور پر گورنر محمد سرور چودھری تقریباً گورنر ہاؤس تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔

ان کی خواہش ِ حکمرانی دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔یہ واقعہ ان کے ساتھ مسلم لیگی دورِ حکومت میں بھی ہو چکا ہے۔ جب وہ شہبازشریف کے مقابلے میں اپنی چودھراہٹ کا علیحدہ چراغ جلانے کی کوشش کر رہے تھے،جس پرانہیں پہلے شہبازشریف کی ناراضی اور پھر گورنری سے سبکدوش کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک زمانے میں یہ افواہ اڑی تھی کہ پنجاب کے اصل حکمران گورنر محمد سرور ہیں۔ عثمان بزدار صرف ایک حکومتی چہرہ ہے اور ان کا پنجاب کی حکمرانی میں کوئی کردار نہیں۔ یہ وہی دور تھا جب پنجاب کے حالات دگرگوں ہو گئے تھے اور عمران خان کو کھلے اور سخت لہجے میں عثمان بزدار کی حمایت کرنا پڑ گئی تھی۔ اس کے بعد لگتا ہے عثمان بزدار نے

کوئی کامل استاد پکڑ لیا ہے،جو انہیں امور حکمرانی سمجھا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں وہ اعتماد بھی دے رہا ہے، جس سے وہ ابتدائی حکمرانی کے دوران محروم نظر آئے تھے۔مجھے لگتا ہے گزرتے وقت نے تمام فریقوں کو سمجھا دیا ہے کہ جس جس کو جو ملنا تھا وہ مل چکا۔ اب اس سے زیادہ کی خواہش نہ رکھی جائے۔ کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ چودھری محمد سرور بھی وہیں موجود ہیں اور چودھری پرویز الٰہی بھی۔ علیم خان بھی میدان میں ہیں اور کئی دوسرے کھلاڑی بھی، جن کی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر نظر رہی ہے، مگر وہ عثمان بزدار کی چیف منسٹری کو حقیقت سمجھ کر تسلیم کر چکے ہیں۔ اس میں یقینا عمران خان کا بھی بڑا کردار ہے۔ انہوں نے ایک

فیصلہ کیا اور پھر اس پر ڈٹ گئے کہ ایک لمحے کے لئے اگر فرض کیا جائے کہ وہ پارٹی کے اندرون یا اپوزیشن کے بیرونی دباؤ کی وجہ سے عثمان بزدار کو تبدیل کر دیتے تو آج پنجاب میں ابھی تک چوہے بلی کا کھیل جاری ہوتا۔ ملک کا سب سے بڑا صوبہ بے یقینی کی آماجگاہ بن جاتا۔ویسے بھی پنجاب اسمبلی میں معمولی اکثریت سے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر تحریک انصاف نے حکومت بنائی ہے، دوبارہ یہ اکثریت شاید نہ مل سکے، پھر نیا پنڈورا بکس کھولنے سے خود حکومت کے لئے مسائل پیدا ہوتے ہیں،کپتان کے سامنے یہ تمام وجوہات تھیں جن کے باعث وہ عثمان بزدار کو مکمل حمایت فراہم کرتے رہے۔ ویسے تو شہباز شریف کے سوا اکثر وزرائے اعلیٰ سال ڈیڑھ سال کے لئے آئے اور تبدیل ہوتے رہے،لیکن حالات سے لگتا ہے کہ عثمان بزدار مدت پوری کرنے کا ریکارڈ قائم

کریں گے،کیونکہ وہ چوکوں چھکوں سے عاری ٹک ٹک کر کے سیاسی اننگز کھیل رہے ہیں۔ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو شروع میں عثمان بزدار اس کا ہدف رہے،لیکن اب اُس نے بھی بھلا دیا ہے، حتیٰ کہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف حمزہ شہباز شریف بھی ہر وقت کپتان کو نشانے پر لئے رکھتے ہیں،کپتان کے کھلاڑی کا ذکر تک نہیں کرتے۔عمران خان کو جعلی وزیراعظم کہنے والے عثمان بزدار کو ڈمی وزیراعلیٰ نہیں کہتے۔یہ کسی حکمت عملی کا حصہ ہے یا پھر عثمان بزدار کو بدلوانے کی خواہش رکھنے والے مایوس ہو گئے ہیں۔ عثمان بزدار کے بارے میں میری خوش گمانی یہ ہے کہ وہ پنجاب کو صرف لاہور یا اپر پنجاب تک محدود نہیں رکھیں گے، ابھی کل ہی انہوں نے کہا ہے پنجاب کے چپے چپے کا دورہ کر کے عوام کے مسائل حل کراؤں گا،انہیں ایسا کرنے کی

ضرورت نہیں، وہ دارالحکومت سے نیچے تحصیل تک پھیلی ہوئی بیورو کریسی سے کام لیں۔ اچھے افسران تعینات کریں اور انہیں ٹاسک دیں، جو کام نہ کرے، اُسے گھر بھیج دیں۔اسی دس ماہ کے عرصے میں جہاں خود انہیں یہ یقین کرتے بہت دیر لگی کہ وہ صوبے کے حاکم اعلیٰ ہیں،اُسی طرح بیورو کریسی کو بھی اب جا کر احساس ہوا ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کپتان کی حکومت میں جانے والے نہیں،اِسی لئے اُن کے ساتھ ہی کام کرنا پڑے گا۔ عثمان بزدار کا اصل ٹاسک یہ ہے کہ وہ کپتان کی گڈ بکس میں رہیں اور عمران خان کی گڈ بکس میں رہنے کے لئے ضروری ہے کہ کام کیا جائے۔ پنجاب حکومت نے اپنا بجٹ اسی دعوے کے ساتھ پیش کیا ہے کہ اس سے صوبے میں یکساں ترقی ہو گی۔اگر عثمان بزدار واقعتا ترقی کا دائرہ پورے صوبے تک بڑھانے میں کامیاب رہے تو انہیں سیاست کا وسیم اکرم ماننا ہی پڑے گا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…