کراچی(آن لائن) ملک میں سستے گھروں کا خواب محض خواب ہی رہ جانے کی توقع ہے کیوں کہ شرح سود میں اضافے نے کم قیمت مکانات کے پروگرام کو مشکلات کا شکار کردیا۔عالمی بینک کی جانب سے مالیاتی کمپنی کے ذریعے کم شرح سود پر فنڈز کی فراہمی کے باوجود گھروں کی تعمیر کے لیے دیے جانے والے قرضوں پر مالیاتی ادارے 15 سے 18 فیصد تک سود لے رہے ہیں۔پاکستان مورگیج ریفائنانز کمپنی (پی ایم ا?ر سی) کے چیف ایگزیکٹو ا?فیسر (سی ای او) مدثر خان نے کہا کہ
ہم نے ملک میں سستے مکانات کی تعمیر کے لیے ہاؤس بلڈنگ فنانس کمپنی (یچ بی ایف سی) کو 2 ارب روپے ادا کیے ہیں۔کمپنی کو طویل مدتی قرضوں کے لیے ‘اے اے اے’ کی کریڈٹ ریٹنگ اور شارٹ ٹرم قرضوں کے لیے اے پلس ریٹنگ دی گئی۔پی ایم سی ا?ر کو عالمی بینک سے کافی کم شرح سود پر فنڈز ملے جو اس نے ظاہر نہیں کی، البتہ کمپنی کے سربراہ نے یہ ضرور بتایا کہ 2 ارب روپے ایچ بی ایف سی کو 8.5 فیصد کی شرح سود پر دیے گئے ہیں۔مدثر خان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایچ بی ایف سی اپنے منافع کا مارجن رکھ کر اپنے صارفین کو قرض دے گا لیکن اس نے یقین دہانی کروائی کے قرض پر شرح سود 12 فیصد رہے گی۔اس وقت کراچی کے انٹر بینک میں ایک سال کے لیے شرح سود 11.5 فیصد ہے جو مالیاتی اداروں کو کم شرح سود پر مکانات کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔دوسری جانب وزیراعظم عمران خان ا?ئندہ 5 سالوں میں 50 لاکھ کم قیمت گھروں کی تعمیر کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن انتہائی بلند شرح سود اور ا?سمان کو چھوتی مہنگائی نے اس خواب کو تعبیر بنانا مشکل کردیا ہے۔مالیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (ا?ئی ایم ایف) سے وابستہ گورنر اسٹیٹ بینک کی تعنیاتی کے بعد مالی خلا کو پر کرنے کے لیے شرح سود میں مزید اضافے کا امکان ہے۔