نیویارک(این این آئی)اقوام متحدہ کی ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن نے کہاہے کہ ایشیاء کی 92 فیصد آبادی کو شدید آلودہ ماحول کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اس خطے کے رہائشیوں کو صحت کے ہوالے سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ بھارت، چین، بینکاک اور جنوبی کوریاکا شمار ایشیا کے
ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں فضا خطرناک حد تک آلودہ اور زہریلی ہے۔ ان ممالک نے فضا میں غباراور آلودگی کو کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جو زیادہ کارآمدثابت نہیں ہوئے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق بھارت کا دارالحکومت دہلی دنیا کا آلودہ ترین شہر جانا جاتا ہے جہاں گذشتہ سال حکومت نے چوراہوں میں بڑے بڑے آلات نصب کرنے کا ارادہ کیا تھاجو فضا کو شفاف کرنے میں مددگار ہوں گے۔ اس کے علاوہ بسوں کی چھتوں پر بھی ایئرفلٹر نصب کیے جائیں جو بس کی حرکت کے ساتھ ساتھ ہوا میں موجود آلودہ عناصر کو اپنی طرف کھینچ لیں گے۔ اس سال بینکاک میں جنوری کے کئی ہفتوں تک گہری دھند نے سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا جس سے نمٹنے کے لیے حکومت نے مختلف طریقے اپنائے۔ مختلف اوور پاسز پر پانی کا چھڑکاو کیا گیا اور ڈرونز کے ذریعے بھی فضا میں پانی پھینکا گیا۔ حکومت ننے مصنوعی طریقے سے بارش پیدا کرنے کاتجربہ بھی آزمایا جو کامیاب نہ رہا۔ جنوبی کوریا نے بھی مصنوعی بارش پیدا کرنے کا تجربہ کیا تھا جس سے صرف چند منٹ کے لیے بارش برسی تھی جو کہ آلودہ تھی۔ اس سال ہانگ کانگ نے 3.7 کلومیٹر پر محیط ایسی سرنگ کھولی ہے جس میں ہواکو شفاف کرنے کا دنیا کا سب بڑا آلہ ہے۔ ہانگ کانگ کی حکومت کے مطابق یہ ا?لہ فضا میں موجود 80 فیصد خطرناک ذرات اور نائیٹروجن ڈائیوآکسائیڈ دور کرے گا۔ چین کے شمالی شہر شیان میں حکومت نے ایک بہت بڑا آلہ لگا نے کا تجربہ کیا ہے جودس کلومیٹر کے دائرے میں موجود ٹھوس اور مائع ذرات کوپندرہ فیصد کم کرے گا۔ مختلف کمپنیوں نے عوام کی تکلیف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صحت کے نام پر مختلف اشیا بیچنا شروع کی ہوئی ہیں جن میں کینڈ ہواسے لے کر پھیپھڑے صاف کرنے والی چائے شامل ہیں۔نیوزی لینڈ ، آسٹریلیا، کینیڈا اور سوٹزرلینڈ ایسے
ممالک میں شامل ہیں جو شفاف ہوا بوتل میں بند کر کہ آلودہ شہروں کے صارفین کو بیچتے ہیں۔ ماہرین کے خیال میں بوتلوں میں بند شفاف ہوا کے ذریعے سانس لینے سے صحت پر خاطر خواہ اثرات نہیں ہوتے۔ ایسے حالات میں سیاحی مقامات کا کاروبار بھی خوب چمکا ہوا ہے۔ ایک اعدادو شمار کے مطابق چین کے آلودہ شہر بیجنگ اور شنگھائی سے ہر سال تقریباً دس لاکھ لوگ تازہ ہوا کی غرض سے پر فضا مقامات کا رخ کرتے ہیں۔