انسان خطا کا پتلا ہے اور اس سے غلطیاں سرزد ہو جانا ایک عام بات ہے کیونکہ رب تعالیٰ کے علاوہ کوئی مکمل نہیں اور اس کے بھیجے گئے نبی اور پیغمبر گناہوں سے معصوم ہیں۔ غلطیوں اور گناہوں پر ندامت دراصل ایمان کی نشانی ہے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جب تمہارے اچھے اعمال سے تمہیں مسرت محسوس ہونے لگے اور برے اعمال سے تکلیف اور غم محسوس ہو تو یہ ایمان کی نشانی ہے۔
ندامت کے بعد توبہ کا عمل ہے اوراس حوالے سے بعض لوگ نہایت تذبذب کا شکار رہتے ہیں کہ پتہ نہیں کہ ان کی توبہ اللہ تعالیٰ نے قبول کی بھی ہے کہ نہیں تو چند ایسی نشانیاں ہم یہاں آپ سے بیان کرنے جا رہے ہیں کہ جس سے آپ کو آپ کی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی گئی توبہ کی قبولیت سے متعلق ذہنی سکون اور راحت کا احساس ہو گا بلکہ آپ رب کائنات کی بے پایاں رحمت کو بھی بخوبی محسوس کر سکیں گے۔ توبہ دراصل اپنے گناہوں پر گہرا دکھ اور ندامت محسوس کرنے کا ہی دوسرا نام ہے۔ جب انسان اپنے طرزعمل کو بدلنے کے لئے بے قرار ہو جاتا ہے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ پروردگار نے اس پر کرم کر دیا ہے اور اسے ہدایت کا راستہ دکھادیا ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ دل کی اس بے قراری کا خاتمہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے حصول سے ممکن ہے۔ اگر احساس ندامت اور توبہ کے بعد آپ کے دل کو قرار نصیب ہو جاتا ہے تو علما کے نزدیک یہ اس بات کی علامت ہے کہ پروردگار نے آپ کی توبہ قبول فرمائی ہے اور آپ کے دل کو اطمینان بخش دیا ہے۔ دین اسلام بھی تمام مسلمانوں کو اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں پر نادم ہونے اور توبہ کی تلقین کرتا ہے کیونکہ اسلام کا سبق ہے کہ کائنات کا رب انسان سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے پھر وہ کیسے اس کی سچے دل سے کی گئی توبہ کو قبول نہیں فرمائے گا۔ اللہ کی رحمت سے مایوس لوگ ہی ندامت سے پرہیز اور توبہ سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ رب تعالیٰ پر ان کے کمزور ایمان اور عقیدے کی نشانی ہوتی ہے
اور اللہ تعالیٰ مستقل اور مسلسل نافرمانیوں پر سخت ناراض ہوتے ہیں اور یہ توبہ ہی ہے جو مسلسل نافرمانیوں کے بعد رب تعالیٰ کے غضب سے نجات کا باعث بنتی ہے۔ گناہوں پر شرمندگی اور ندامت کا احساس نہ ہونا دراصل رب کے غصے اور غضب کی علامت ہے۔ ترجمہ: اللہ نے رحمت کے سو حصے بنائے اور اپنے پاس ان میں سے ننانوے حصے رکھے صرف ایک حصہ زمین پر اتارا اور اسی کی وجہ سے تم دیکھتے ہو کہ مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے، یہاں تک کہ گھوڑی بھی اپنے بچہ کو اپنے سم نہیں لگنے دیتی بلکہ سموں کواٹھا لیتی ہے کہ
کہیں اس سے اس بچہ کو تکلیف نہ پہنچے یعنی اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے مگر وہ اپنے ہر بندے سے محبت نہیں کرتا۔ محبت اور رحم میں فرق ہے۔ اللہ ایمان والوں سے، حق پرستوں سے، صادقین سے، مطیع وفرمانبرداروں سے، محسنین سے محبت کرتا ہے مگر ظالموں اور کافروں سے محبت نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ترجمہ: اے نبی آپ کہہ دیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں، اگر وہ اعراض کرے تو یقیناًاللہ کافروں کو پسند نہیں فرماتا (آل عمران:32)۔ اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی اطاعت کرتے ہیں اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور جو ایمان و اطاعت قبول نہیں کرتے اللہ ان سے محبت نہیں کرتا۔