اسلام آباد (آن لائن) مسلم لیگ (ن) رہنماء و سابق وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف کی خاموشی کسی ڈیل کا حصہ نہیں بلکہ ان کی خاموش سیاست نے عمران خان کا وہ چہرہ عوام کے سامنے بے نقاب کردیا جو ہزاروں الفاظ پر بھاری ہے۔ میاں نواز شریف کی ساری جدوجہد عوام کے ووٹ کے تقدس کے لئے ہے۔ چوہدری نثار ماضی کا حصہ بن گئے ہیں ن لیگ کے اندر انہوں نے اپنا کردار خود ختم کیا۔ ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں ہر ادارے کو اپنی اپنی حدود سے
باہر نہیں آنا چاہیے۔ منزل پر پہنچنے کے لئے دو مختلف راستے اختیار کئے جاسکتے ہیں اور شہباز شریف دوسرے راستے کے راہی ہیں تو ان کی منزل بھی وہی ہے جو نواز شریف کی ہے۔ مسلم لیگ ن کے اندر میاں نواز شریف کا فیصلہ آخری اور حتمی ہوتا ہے ماڈل ٹاؤن میں طاہر القادر کی سیاسییلغار تھی اور سانحہ ساہیوال میں مارے جانے والے معصوم لوگ تھے موجودہ حکومت میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے گلا دبانا چاہتی ہے اور ہم اس بل کو سینیٹ اور قومی اسمبلی سے کسی بھی صورت میں پاس نہیں ہونے دیں گے ان خیالات کا اظہار انہوں نے آن لائن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میری سیاسی جدوجہد پیپلزپارٹی کے پلیٹفارم سے ہوئی بھٹو نے پاکستانی عوام کو جمہوری حقوق دلانے کیلئے طویل جدوجہد کی اور یہی جدوجہد میاں نواز شریف کررہے ہیں کسی وجہ سے میں اس قافلے میں سپاہی بن گیا پیپلزپارٹی بھٹو کے منشور سے ہت گئی ہے اور وہ اب مصلحت کی سیاست کرتی ہے۔ میاں نواز شریف کا بیانیہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ جمہوری جدوجہد کی فلاسفی ہے۔ انہوں نے حلقے کی سیاست کرنے کے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کے لئے خاص مزاج دست و بازو اور وسائل چاہئیں جو میرے پاس نہیں عوامی مزاج کا آدمی نہیں ہوں اور نہ ہی وسائل ہیں کہ حلقے کی سیاست کروں۔ جمہوری جدوجد کا ایک ادنی سا کارکن ہوں اور رہوں گا ۔
جب آپ وزیر اطلاعات تھے تو پی ٹی وی میں من پسند لوگوں کو پروگرام دینے اور دیگر تقرریوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی کے ایم ڈی محمد مالک تھے میں نے کوئی دخل اندازی نہیں کی جب وزیر اطلاعات بنا تو 99 فیصد پی ٹی وی میں وہی لوگ کام کرتے رہے جو میرے آنے سے پہلے تھے کسی بھی کسی صحافی یا مالکان کو فون کالز کے ذریعے میاں نواز شریف کے خلاف خبریں لگانے سے نہیں روکا ی ہ تو بے بنیاد الزام ہے
’’ڈان لیکس‘‘ میں مجھ پر الزام ہے کہ خبر رکوائی کیوں نہیں ۔ مسلم لیگ ن کے دور مین تو سب سے زیادہ میڈیا انہی کے خلاف استعمال ہوا۔ پانامہ لیکس کو عدالت میں لے جانے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ حکومت کے پاس دو راستے تھے ایک تو یہ تھا کہ اگر اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف سڑکوں پر آتی تو حکوتم انہیں بزور طاقت روکتی اس سے انتظار پھیلتا۔ انتشار کی سیاست کرنا مسلم لیگ ن کا خاصہ نہیں اس لیے ہم اسے عدالت میں لے گئے۔ پارلیمانی کمیشن بنانے کا معاملہ اٹھایا گای
اس میں ٹی او آر طے نہیں ہورہے تھے۔ ٹی او آر بنانے دوالے چاہتے تھے کہ میاں نواز شریف کو مائنس کیا جائے اور ہم چاہتے تھے کہ سب کا احترام ہو۔ وہ کردار اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں سب عیاں ہوچکا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ن لیگ کے کارکن اور پاکستانی عوام نے مشکلات دیکھی ہیں مگر انہوں نے مائنس نواز شریف کو قبول نہیں کیا۔ میاں شہباز شریف اگر مائنس نواز شریف قبول کرلیتے تو آج جیل میں نہ ہوتے۔ مستقبل میں ن لیگ کی سیاست ’’مریم نواز‘‘ کے گرد کھومے گی۔
مریم نواز کا نام ڈان لیکس مین اس لیے ڈالا گیا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہیں۔ ان کے پاس تو کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا کہ وہ سرکاری میٹنگز میں بیٹھتی۔ ضمانت کے بعد میاں نواز شریف کا عوامی جلسے نہ کرنے کا دفاع انہوں نے ان الفاظ میں کیا کہ جب ان کی ضمانت ہوئی تو ملک میں انتخابات ہوچکے تھے ہم اگر جلسے کرتے تو عوام کو کچھ بتانا پڑتا یہ عوام سے کیا گفتگو کرتے انتخابات کے نتائج پر ہمارے شدید تحفظات ہیں۔ اور اہم اس کا اظہار کرتے ہیں
شفاف انتخابات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب گنتی صحیح ہوگی۔ ووٹ جس کو ڈالا جائے گا ان کا گنتی کیاجائے ایسا نہیں ہوسکتا کہ ووٹ A کو آلا جائے اور گنتی میں B کا کیا جائے؟ انہوں نے ایک سوال کے جواب مین بتایا کہ اگر ہم جلسے کرتے تو عمران خان ہر مشکل کو میاں نواز شریف کے کھاتے مین ڈال دیتا اور کہتا کہ ہم یہ کام کرنا چاہتے تھے میاں نواز شریف نے نہیں کرنے دیا۔ ن لیگ کی خاموش سیاست نے موجودہ حکومت کا مکروہ چہرہ عوام کے سامنے
بے نقاب کردیا۔ اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ملک میں خاموشی سے اس پر کام ہورہا ہے اس کی حمایت مین ان لوگوں نے کالم لکھے ہیں جنہیں مقتدر حلقوں تک رسائی حاصل ہے اور یہی الفاظ بعد میں عملی شکل اختیار کر لیتے ہین پاکستان کا آئین پارلیمانی ہے اور اس کا تحفظ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس ملک کی بقاء جمہوریت میں ہے اور جمہوریت چلے گی تو کیک کا سائز بڑا ہوگا اور ہر ایک کو اس کا حصہ ملے گا۔