اسلام آباد(این این آئی)نامزد چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ بطور چیف جسٹس آف پاکستان انصاف کی فراہمی میں تعطل کو دور کرنے کی کوشش کروں گا اور از خود نوٹس کا اختیار وہاں استعمال ہوگا جہاں دوسرا حل موجود نہ ہو ٗچیف جسٹس ثاقب نثار اور میں ایک ساتھ لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے، ہم ایک ساتھ جڑے بچوں کی طرح ہیں جو آج الگ ہو جائیں گے، کسی سرجری کے ساتھ نہیں ، آئین کے تحت الگ ہوں گے،
چیف جسٹس ثاقب نثار کی انسانی حقوق سے متعلق خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی،غیر ضروری التواء کو روکنے کیلئے جدید آلات کا استعمال کیا جائے گا، جعلی مقدمات کے خلاف ڈیم بناؤں گا اور عرصہ دراز سے زیر التواء مقدمات کا قرض اتاروں گا، ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ساری دنیا میں غلط سمجھا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ فوجی عدالتوں میں جلد فیصلے ہوتے ہیں، کوشش کریں گے سول عدالتوں میں بھی جلد فیصلہ ہوں، فوج اور حساس اداروں کا سویلین معاملات میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے،ملک کی ترقی کیلئے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا چاہیے، جمہوری استحکام کے لیے تمام ریاستی اداروں کا فعال ہونا ضروری ہے۔ جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر منعقدہ فل کورٹ ریفرنس میں 17 میں سے 16 ججز نے شرکت کی تاہم جسٹس منصور علی خان ریفرنس میں شریک نہ ہوئے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے بہت مشکل حالات میں عدالت چلائی، انہیں سیاسی، سماجی، معاشرتی اور آئینی سمیت کئی طرح کی مشکلات کا سامنا رہا۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ساتھ پچھلے 20 سال سے ہوں اور ہم دونوں ایک ساتھ لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے، ہم ایک ساتھ جڑے بچوں کی طرح ہیں جو آج الگ ہو جائیں گے، کسی سرجری کے ساتھ نہیں بلکہ آئین کے تحت الگ ہوں گے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی انسانی حقوق سے متعلق خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی،
انہوں نے معاشرتی اور آئینی سمیت کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کیا۔انہوں نے کہا کہ بطور چیف جسٹس پاکستان انصاف کی فراہمی میں تعطل کو دور کرنے کی کوشش کروں گا، ماتحت عدلیہ میں برسوں سے زیر التواء مقدمات کے جلد تصفیے کی کوشش ہوگی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ غیر ضروری التواء کو روکنے کیلئے جدید آلات کا استعمال کیا جائے گا، جعلی مقدمات کے خلاف ڈیم بناؤں گا اور عرصہ دراز سے زیر التواء مقدمات کا قرض اتاروں گا،
اس وقت عدالتوں میں 19 لاکھ کیسز زیر التواء ہیں۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ 3 ہزار ججز 19 لاکھ مقدمات نہیں نمٹا سکتے، میں جعلی گواہوں کے خلاف بھی ڈیم بنانا چاہتا ہوں۔نامزد چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ساری دنیا میں غلط سمجھا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ فوجی عدالتوں میں جلد فیصلے ہوتے ہیں، کوشش کریں گے سول عدالتوں میں بھی جلد فیصلہ ہوں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا سو موٹو (از خود نوٹس) کا اختیار بہت کم استعمال کیا جائے گا اور یہ اختیار وہاں استعمال ہوگا جہاں دوسرا حل موجود نہیں ہوگا، ہائیکورٹ کو بھی اپنے اختیارات حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے چاہئیں۔نامزد چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فوج اور حساس اداروں کا سویلین معاملات میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے،
پچھلے ادوار میں ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پیدا کی گئی، ملک کی ترقی کیلئے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا چاہیے، جمہوری استحکام کے لیے تمام ریاستی اداروں کا فعال ہونا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں بات کرنی چاہیے کہ کس ادارے نے کہاں دوسرے کے کام میں مداخلت کی؟، عدلیہ نے کہاں دوسرے اداروں کے اختیارات میں مداخلت کی؟ لاپتہ افراد کا معاملہ سنگین ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میری رگوں میں بلوچ خون دوڑ رہا ہے، میں آخری دم تک لڑوں گا، مقننہ کا کام صرف قانون سازی ہے ترقیاتی فنڈز دینا یا صرف ٹرانسفر پوسٹنگ کرنا نہیں، صدر پاکستان کی سربراہی میں چارٹر آف گورننس پر بحث کی ضرورت ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرح میں بھی ڈیم تعمیر کرنا چاہتا ہوں اور میں بھی ان کی طرح ملک کا قرضہ اتارنا چاہتا ہوں۔