اسلام آباد(این این آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئی پی پیز معاہدوں سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ پیر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں آئی پی پیز کو اضافی ادائیگیوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس میں وزیر توانائی عمر ایوب عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمر ایوب صاحب ادائیگیوں کا معاملہ دیکھا ہے، آئی پی پیز کے ساتھ کس طرح سے معاہدے ہوئے، یکطرفہ معاہدے آئی پی پیز کے ساتھ ہوئے، غریب لوگوں سے پیسے اکٹھا کر کے ان کو دئیے ہیں، بجلی پیدا کریں یا نہ کریں ادائیگیاں ہونی ہیں۔وزیر توانائی عمر ایوب نے عدالت کو بتایا کہ ادائیگی کے لیے ساورن گارنٹی دی گئی، کیپسٹی اور انرجی ادائیگیاں ہوئی ہیں، بجلی گھروں سے سرکار بجلی خریدتی ہے، گرمیوں میں تمام بجلی گھروں کو چلانا پڑتا ہے، سردیوں میں بجلی کی طلب کم ہو جاتی ہے، معاہدے کے تحت سرکار پہلے سستی بجلی خریدتی ہے، سرد موسم میں جن بجلی گھروں سے بجلی نہیں لیتے انہیں کیپسٹی پیمنٹ کرتے ہیں۔چیف جسٹس سے استفسار کیا کہ کیپسٹی پیمنٹ میں سرکار نے کتنا پیسہ ادا کیا، جس پر عمر ایوب نے کہا کہ نجی تھرمل بجلی گھروں سے 46 فیصد بجلی حاصل ہوتی ہے، ہائیڈل بجلی کی صلاحیت سردیوں میں کم ہو جاتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آئی پی پیز معاہدوں سے متعلق مفصل رپورٹ دی جائے، عدالت نے کہا کہ کیا آئی پی پیز کے معاہدے ملکی مفاد اور قانونی ہیں آئی پی پیز سے کتنی بجلی پیدا ہو تی ہے، عدالت نے آئی پی پیز معاہدوں سے متعلق مفصل رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔ عدالت نے آئی پی پیز سے متعلق عدالتی ایوارڈز کی تفصیل بھی فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔