لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) ہماری کائنات پھیل رہی ہے، یہ بات تو بہت سے لوگوں نے سنی ہوگی لیکن 1990 کی دہائی میں ماہرین ایسی دریافت کرنے کو تھے جس کے بعد فلکیاتی میدان میں ایک انقلاب برپا ہوجاتا۔ ماہرین کو اس دریافت سے پہلے یہ معلوم تھا کہ یہ کائنات بگ بینگ یعنی نقطہ آغاز سے مادے اور توانائی کے تیز پھیلاؤ کے بعد وجود میں آئی ہے اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ آج 13 ارب
سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد اس کے پھیلاؤ میں کمی دکھائی دینی چاہیے، لیکن نتائج تو کچھ اور ہی بتا رہے ہیں۔ 1998میں ہونے والی اس دریافت میں ماہرین فلکیات کی بین عالمی ٹیم نے حصہ لیا جس میں امریکی آسٹرو فزسسٹ ڈاکٹر آدم ریس، آسٹریلیوی آسٹرو فزسسٹ ڈاکٹر برائن شمٹ اور ڈاکٹر سول پرلمٹر شامل تھے. یہ سائنسدان ایک قسم کے سپرنووا، جسے سپرنووا ٹائپ ون اے کہتے ہیں، سے آنے والی روشنی کا جائزہ لے رہے تھے. جب ایک بڑا ستارہ اپنی آخر عمر کو پہنچ جاتا ہے تو وہ زوردار دھماکے کی صورت میں پھٹ جاتا ہے اور خلاء میں اپنے اندر موجود مادے کو پھیلا دیتا ہے، جس کے بعد اسی مادے سے نئے ستارے جنم لیتے ہیں اور اس دھماکے کو فلکیاتی اصطلاح میں سپرنووا کا نام دیا جاتا ہے. اس کی 2 اقسام ہوتی ہیں، جن میں ٹائپ ون اے اور ٹائپ 2 شامل ہیں، سپرنووا ٹائپ 2 میں ہمارے سورج سے 8 گنا بڑا ستارہ پھٹتا ہے اور بعد میں نیوٹران ستارہ یا بلیک ہول بن جاتا ہے، جبکہ ٹائپ ون اے میں ستاروں کا جوڑا موجود ہوتا ہے، جن میں ایک بونا ستارہ ہوتا ہے جبکہ اس کا ساتھی کوئی بھی دوسرا ستارہ ہوسکتا ہے۔ جب دوسرا ستارہ اپنی آخر عمر کو پہنچ جاتا ہے تو بونا ستارہ اس کی سطح سے مادہ اپنی جانب کھینچنے لگتا ہے اور جب اس بونے ستارے میں موجود مادے کی مقدار ہمارے سورج سے 1.4 گنا زیادہ ہوجاتی ہے تو یہ بونا ستارہ زوردار دھماکے کی صورت میں پھٹ جاتا ہے. خیال رہے کہ سب سے پہلے 1929 میں مشہور سائنسدان ایڈون ہبل نے یہ دریافت کی تھی کہ کائنات پھیل رہی ہے اور اس کے بعد بہت سے مذہبی و سائنسی نظریات غلط ثابت ہوئے، اسی کائناتی پھیلاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس عالمی ٹیم میں موجود ماہرین نے اس کے بارے میں تین طرح کے خیالات پیش کئے جو مندرجہ ذیل ہیں۔ 1-کائنات
کے پھیلنے میں کمی: اگر کائنات کے پھیلاؤ میں وقت کے ساتھ کمی واقع ہورہی ہے تو ریاضی کی مدد سے حاصل شدہ اس سپرنووا کی روشنی میں زیادتی ہوگی۔ 2-کائنات کا مخصوص رفتار سے پھیلاؤ: اگر کائنات کسی مخصوص رفتار سے پھیل رہی ہے تو سپرنووا کی روشنی حساب سے حاصل شدہ روشنی کے برابر ہوگی۔ 3- کائنات کے پھیلاؤ میں تیزی: اگر کائنات کے پھیلاؤ میں تیزی واقع ہورہی ہے۔
تو سپرنووا کی روشنی حساب سے حاصل شدہ روشنی سے کم ہوگی۔ عالمی ٹیم نے پہلے ریاضی کی مدد سے یہ معلوم کیا کہ اس وقت یہ سپرنووا زمین سے جتنی دوری پر ہے اس حساب سے کتنی روشنی زمین تک پہنچنی چاہیے، ساتھ ہی جب اس کو بڑی دوربینوں سے دیکھا گیا تو آنے والی روشنی کی مقدار حساب لگائی گئی مقدار سے کم تھی. یہ دیکھ کر ماہرین بہت حیران ہوئے اور سوچا کہ
شاید دوربین میں کسی طرح کی خرابی ہے، جس وجہ سے ڈیٹا غلط آرہا ہے، لیکن جب دوربین کا رخ اسی قسم کے دوسرے سپرنووا کی جانب گھمایا گیا تو یہ معلوم ہوا کہ یہ ڈیٹا دوربین میں موجود خراب کی نہیں بلکہ کسی حیران کر دینے والی دریافت کی نوید سنا رہا ہے. جی ہاں! اس وقت ان ماہرین کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ انہوں نے ایک ایسی دریافت کرلی ہے جو فلکیات کے شعبہ میں تہلکہ مچا دے گی۔
اس تجربے کے بعد ان 3 خیالات میں سے تیسرا خیال ثابت ہوا، جس کے مطابق کائنات کے پھیلنے میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آرہی ہے، لیکن اب یہ بات قابل غور تھی کہ عام طور پر تو ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی دھماکا ہو تو وقت کے ساتھ بکھرتے مادے کی رفتار میں کمی آتی ہے اور اگر بگ بینگ کے نظریے جس کے حق میں سائنسدانوں کی اکثریت پائی جاتی ہے کو دیکھا جائے۔
تو اس کے مطابق بھی بگ بینگ نقطہ آغاز سے کائنات کے زوردار پھیلاؤ (دھماکے) کو کہا جاتا ہے تو آج تقریبا 13 ارب سال سے زائد کے بعد تو کائنات کے پھیلاؤ میں بھی کمی واقع ہونی چاہیے جبکہ ایسا دیکھنے میں نہیں آیا. تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کیا چیز ہے جو کائنات کے پھیلاؤ میں تیزی لارہی ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ان ماہرین نے ایک اور اصطلاح پیش کی، جسے فلکیات میں “ڈارک انرجی” کا نام دیا گیا۔
واضع رہے کہ فلکیات میں اگر کسی بھی چیز کے ساتھ “ڈارک” کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سائنس اس چیز کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتی اور نہ ہی اس کا کبھی مشاہدہ کیا گیا ہے، لیکن اس کے اثرات کائنات میں ہر جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں. ڈارک انرجی کے اثرات ہمیں کائنات کے پھیلاؤ کی تیزی میں نظر آتے ہیں، اس دریافت کے تقریبا 13 سال بعد، 2011 میں ان تینوں
سائنسدانوں کو اس دریافت پر نوبل انعام سے نوازا گیا. یہ سب پڑھنے کے بعد ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر ڈارک انرجی موجود ہے اور کائناتی پھیلاؤ جاری ہے تو پھر اربوں سالوں میں سورج زمین سے دور کیوں نہیں چلا گیا؟ یا پھر ستارے ابھی تک کہکشاؤں میں موجود کیوں ہیں؟ ہمیں یہ بھی ہمیں سننے کو ملتا ہے کہ ہماری مِلکی وے کہکشاں اور ہمسایہ کہکشاں اندرومیڈہ قریب آرہی ہیں۔
تو اس میں کتنی سچائی ہے؟ یہ بھی پڑھیں: زمین پر پانی کہاں سے اور کیسے آیا؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اندرومیڈہ کا ہماری کہکشاں کے قریب آنے والی بات بھی اتنی ہی حقیقی ہے جتنی ڈارک انرجی سے کائناتی پھیلاؤ والی بات ہے، کائنات میں ازل سے کشش ثقل اور کائناتی پھیلاؤ کے درمیان “رسہ کشی” چلتی آ رہی ہے. مثلا نظام شمسی میں سیارے، سورج سے جس فاصلے پر ہیں۔
اس پر کشش ثقل کا اثر ڈارک انرجی کے اثر سے کہیں زیادہ ہے، جس کی وجہ سے یہاں ہمیں کائناتی پھیلاؤ نظر نہیں آتا جبکہ اگر ہم دور کہکشاؤں کا بغور جائزہ لیں تو یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ یہ کہکشائیں ہم سے اتنا دور ہیں کہ اتنی دوری پر کشش ثقل سے زیادہ ڈارک انرجی کا اثر دکھائی دیتا ہے، جس وجہ سے یہ کہکشائیں ہم سے دور جاتی دکھائی دیتی ہیں. آخر میں میں بس
یہی کہوں گا کہ سائنسدان ابھی کائنات کے سربستہ رازوں سے پردے اٹھانا شروع ہوئے ہیں اور آنے والے قابل سائنسدانوں کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ بھی کائنات کے چھپے راز سے دنیا کو آشکار کروائیں اور خلائی تسخیر میں اپنا حصہ ڈالیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا کبھی سائنسدان کائنات کے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کے قابل ہو پائیں گے؟