اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان بیل آؤٹ پیکیج کی شرائط کے حوالے سے کچھ معاملات پر اختلافِ رائے موجود ہے جس میں توانائی کی قیمتوں میں اضافی ٹیکسز اور چینی تعاون کا مکمل اخراج شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے بتایا کہ ہماری اور آئی ایم ایف کی پوزیشن میں اب بھی فرق موجود ہے۔
تاہم انہوں نے بات چیت کو مثبت اور خلیج کو کم کرنے والی قرار دیا۔ قبل ازیں انہوں نےبتایا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے متوقع 3 ارب ڈالر کی امداد میں سے ایک ارب ڈالر پیر کے روز پاکستان اسٹیٹ بینک کو منتقل ہو چکے ہیں اور بقیہ 2 ارب ڈالر بھی آئندہ کچھ روز میں مل جائیں گے۔ اس حوالے سے باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین کے مابین بجلی کی قیمتیں بڑھانے، ریونیو میں اضافے کے طریقہ کار اور چینی امداد اور اس کے اثرات پر اضافی ٹیکسز کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے لیے وفاقی حکومت کے بجائے صوبائی حکومتوں کو فنڈز فراہم کریں، وزیر خزانہ اسد عمر کی منگل کو ملائیشیا روانگی سے قبل دونوں فریقین کے مابین بات چیت کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کا قوی امکان ہے۔ اس ضمن میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ مذکورہ بات چیت کا اختتام منگل کو ہوجائے گا اور اختلافی معاملات کے بارے میں تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ چینی سرمایہ کاری کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چینی تعاون مکمل طور پر شفاف ہے اور پروگرام کے تحت بیرونی قرضوں کی تمام تر تفصیلات سے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا میں موجود لوگوں کو شاید اس حوالے سے کوئی مسئلہ ہو لیکن چینی قرضوں کی کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں اور تمام تر سرمایہ کاری واضح اور شفاف ہے۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا تھا کہ مالی معاملات کے بارے میں آئی ایم ایف کو تحفظات ہیں اور ان کے مطابق وفاق نے آمدنی کے لیے مفید ٹیکسز صوبوں کو منتقل کردیے جبکہ صوبوں کے ضروری اخراجات کی ذمہ داری اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے رقم صوبے فراہم کریں جس کی کل لاگت فی الحال ایک سو 50 ارب روپے ہے کیوں کہ غربت کا خاتمہ وفاق اور صوبوں دونوں کی ذمہ داری ہے. اس کے ساتھ قبائلی علاقہ جات کو قومی دھارے میں لانے کے بعد کی ذمہ داری بھی صوبوں میں تقسیم ہونی چاہیے۔