اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے وفاقی احتساب کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشرے میںصرف سیاستدان کرپٹ نہیں ، عدلیہ، سول، ملٹری بیوروکریسی اور سیاستدان سب کا احتساب ہونا چاہیے، معاشرے کے اندر صرف اور صرف سیاستدان ہی کرپٹ نہیں،ہمیں احتساب بلا تفریق کرنا ہو گا،کرپشن
تب ہی ختم ہو گی جب ہم اسکی جڑکو کاٹیں گے،ملک میں یکطرفہ احتساب نہیں چلے گا،گزشتہ5سے 6دنوں سے پارلیمان میں دراڑیں نظر آنے لگ گئی ہیں،ایسا لگتا ہے کہ فاشٹ قوتوں کوچھوڑدیا گیا ہے تاکہ وہ پارلیمان، اداروں اور آئین کے تحت کام کرنے والے عہدوں کو ملیا میٹ کر سکیں،چیئرمین سینیٹ کی رولنگ پر حکومت کی جانب سے جو ردعمل آیا وہ آمریت میں بھی نہیں آیا، کسی آمر کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ پر انگلی اٹھا سکے،مارشل لاء کے دور میں پارلیمنٹ کا تقدس پامال نہیں ہونے دیااب ان کے سامنے بھی سیسہ پلائی دیوار بنیں گے۔جمعہ کو سینیٹ میں عوامی اہمیت کے حامل عوامل پر اظہار خیال کرتے ہوئے سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت ارکان کی وہ ہے جنہوں نے اپنی ساری جدوجہد آمریت کے خلاف کی اور ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کیلئے سختیاں جھیلیں، اس سفر میں بہت اتار چڑھائو آئے، مگر سیاسی کارکن اس جدوجہد پر گامزن رہے اور آئندہ بھی رہیں گے،گزشتہ کچھ عرصہ خاص طور پانچ چھ دنوں سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جس بلڈنگ کے اندر ہم موجود ہیں اس کی بنیادوں کے اندر کچھ دراڑیں نظر آنے لگ گئی ہیں، سینیٹ ہال کی دیواروں میں بھی کچھ دراڑیں نظر آرہی ہیں،وہ ایسی دراڑیں ہیں جو حسن ناصر، شہید بھٹو اوربے نظیر بھٹو
کے خون سے بھی نہ بھری جائیں، ایسا لگتا ہے کہ فاشٹ قوتوں کوچھوڑا گیا ہے تاکہ کچھ طاقتوں کو چھوڑ دیا گیا ہے تا ک وہ انپارلیمان، اداروں اور آئین کے تحت کام کرنے والے عہدوں کو ملیا میٹ کر دیں، اگر یہ عمارت گری تو ہم میں سے شائد ہی کوئی ملبے سے زندہ نکلے۔گزشتہ پانچ چھ دنوں کے دوران سینیٹ کی جو صورتحال رہی اس کے ملبے سے کوئی نہیں بچ سکے گا، چیئرمین سینیٹ نے
گزشتہ روز رولنگ دی مگر اس رولنگ پر جو رد عمل آیا اس پریہ ضرور کہوں گا کہ وزیراعظم نے شائد ایسی بات نہ کی ہومگر وزیراعظم کا نام لیا گیا اور کہا گیا کہ کابینہ نے چیئرمین سینیٹ کی رولنگ پر شدید ردعمل دیا اور تحفظات کا اظہار کیا ، اس طرح کا رد عمل آمر کے دور میں بھی نہیں آیا،یہ دھمکی دی گئی کہ سینیٹ اگر کابینہ کے بغیر کام کر سکتی ہے تو کابینہ بھی اس حوالے سے
کچھ سوچ سکتی ہے، دھمکی دی گئی کہ کابینہ بھی سینیٹ کا بائیکاٹ کر سکتی ہے،اگر کابینہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر تی ہے تو آئین کی خلاف ورزی کرے گی، پریس کانفرنس میں کہا گیا چیئرمین سینیٹ اور یہ ایوان بل واسطہ منتخبہوا، یہ ایوان وفاق کی اکائیوں کا نمائندہ ہے جسے اسمبلیاں منتخب کرتی ہے،،سینیٹ کے الیکشن کا طریقہ کار آئین میں دیا گیا ہے یہ ایوان چاروں اکائیوں کا نمائندہ ہے،
یہ کہا جائے کہ چیئرمین ان ڈائریکٹ منتخب ہوا، پھر میں چیلنج کروں گا کہ وزیر اعظم اور صدر بھی ان ڈائریکٹ منتخب ہے،وزیراعظم کو ارکان قومی اسمبلی منتخب کرتے ہیں، جبکہ صدر کو چاروں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی منتخب کرتی ہے، ماضی میں کسی آمر کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ پر انگلی اٹھا سکے،کیا یہ لوگ جمہوریت کو آگے بڑھا رہے ہیں،
میں نہیں سمجھتا کہ وزیراعظم اور کابینہ نے ایسا کہا ہو،حکومتی وزراء کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ جب ہم کرپشن پر بات کرتے ہیں تو سینیٹ میں ہنگامہ ہو جاتا ہے، حکومت الیکشن میں کرپشن اور کرپٹ لوگوں کے خلاف بات کر کے آئی کہ ہم کرپٹ لوگوں کو کٹہرے میں لائیں گے،ان کے مطابق جو لوگ کرپٹ ہیں وہ آج کٹہرے میں کھڑے ہیں،رولز کے مطابق جو بات عدالت میں زیر سماعت ہو
اس کو آپ ایوان میں نہیں اٹھا سکتے مگر پھر بھی یہاں عدالت میں زیر سماعت کیسوں پر بات کی جاتی ہے، چلیں مانتا ہوں کہ مجھ سمیت سیاستدان کرپٹ ہوں گے،آپ معاشرے میں کرپشن کے ناسور کو ختم کرنے آئے ہیں، اس مقصد کیلئے میں آپ کے ساتھ ہوں، کیا معاشرے کے اندر صرف اور صرف سیاستدان ہی کرپٹ ہیں، کیا احتساب صرف دو یا تین سیاسی جماعتوں کا ہی ہونا ہے،
کیا معاشرے میں سیاستدانوں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے،ہمیں احتساب بلا تفریق کرنا ہو گا،جب میں چیئرمین سینیٹ تھا تو اس وقت کہا تھا بلا تفریق احتساب کریں، آپ اس سے کیوں بھاگ گئے؟ اس ملک میں یک طرفہ احتساب نہیں چلے گا، صرف سیاستدان کرپٹ نہیں، معاشرے کا ہر شخص بد قسمتی سے کرپٹ ہے، عدلیہ ، سول، ملٹری بیوروکریسی سب جوابدہ ہونے چاہئیں لیکن اس کے لیے
ہم تیار نہیں انکے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمارے پر جلتے ہیں۔سابق چیئرمین سینیٹ نے وفاقی احتساب کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن میں تمام اسٹیک ہولڈر، سیاستدان، ججز، چاہے ملٹری کو شامل کیا جائے، اگر میرا احتساب میرے ساتھی نہیں کرسکتے تو پھر کوئی اور محمکے والا بھی اپنے ساتھی کا احتساب نہیں کر سکتا۔ نیب احتساب کمیشن کا سہولت کار بنے،یہ کمیشن فیصلہ کرے
کہ کس کے خلاف ریفرنس دائر کرنا ہے اور اس کی مدت کتنی ہو نی چاہیے،مجھے احساس ہے کہ کچھ لوگ جدوجہد کر کے حکومت میں آئے مگر ان کے ساتھ ان لوگوں کو ملایا گیا جو مشرف کابینہ میں تھے، جب میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے 22مئی یاد آجاتا ہے اور مجھے وہ مشترکہ اجلاس بھی یاد آ جاتا ہے جس سے خطاب کے بعد مشرف نے اپوزیشن کو دیکھ کر مکا لہرایا تھا،
ایک وزیر نے کہا کہ جو لوگ شور مچاتے ہیں ان کو اوپر بھیج دینا چاہیے، اس بات کا کیا مطلب ہے، چیئرمین سینیٹ کیلئے کہا گیا کہ ہم انہیں دیکھ لیں گے، ان سب باتوں کا کیا مطلب ہے،اس طرح ہم نے مارشل لاء کے دور میں پارلیمنٹ کا تقدس پامال نہیں ہونے دیا، اب بھی ہم ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنیں گے، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ رضا ربانی کی باتوں کی 100فیصد حمایت کرتا ہوں، انہوں نے پوری قوم کو لائن آف ایکشن دے دیا ہے۔