منگل‬‮ ، 09 ستمبر‬‮ 2025 

’’ہم مے خانے میں پہلے مفت کی پیتے تھے ، پھر سرکار کی پیتے رہے ، پھر ادھار کی پیتے رہے ، اب بھیک میں بھی کوئی دینے کو تیار نہیں ‘‘ ملک چلانے کیلئے پیسے نہیں لوگوں کو ریلیف کہاں سے دیں؟ الیکشن سے پہلے بلند و بانگ دعوے کرنیوالی پی ٹی آئی حکومت نے ہاتھ کھڑے کر دئیے

datetime 14  اکتوبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آن لائن)’’ہم مے خانے میں پہلے مفت کی پیتے تھے ، پھر سرکار کی پیتے رہے ، پھر ادھار کی پیتے رہے ، اب بھیک میں بھی کوئی دینے کو تیار نہیں ‘‘۔ یہ باتیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دفتر خارجہ میں ملک بھر سے آئے ہوئے سینئر صحافیوں سے خصوصی ملاقات میں کہیں ۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں عیاشی کی عادت نے تباہ کر دیا، ہمارے سیاستدانوں نے کبھی خود کو سنبھالنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

صحافیوں کے ایک سوال پر تحریک انصاف کی حکومت کے چند سخت اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ معیشت کی حالت خراب سے خراب تر ہو رہی ہے ۔ مہنگائی کے باعث عوام پریشان ہیں لیکن لوگوں کو یہ سمجھنا ہو گا ہمارے حکمران سرکاری خزانے سے عیاشیاں کرتے رہے ۔ اب حالت یہ ہے کہ لوگ قربانی دینے کو تیار نہیں ۔ ہمارے منہ کو لگی ہوئی چھوٹ نہیں رہی۔ صورت حال یہ ہے کہ کوئی ہمیں قرضہ دینے کو بھی تیار نہیں ۔ انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کر کے پوچھا کہ جب خرانہ ہی خالی ہے تو ہم معاملات ریاست کیسے چلائیں ۔ عوام کو ریلیف کہاں سے دیں ۔ ہمیں احساس ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ناکام ہوئی تو آگے کوئی راستہ نہیں ۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ اس ساری صورت حال کے باوجود ہمیں پرامید رہنا چاہئے کہ حالات جلد درست ہو جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک بات اور بھی ہے کہ حالات اتنے خراب نہیں جتنا پینک پھیل گیا ہے ۔ ہمارے پاس حالات کے سدھارنے کے دو رہی راستے ہیں ایک یہ کہ لوٹی ہوئی دولت واپس خزانے میں ڈالیں اور دوسرا نظام چلانے کے لئے مصلحت کے تحت آئی ایم ایف اور دوسرے دوستوں سے قرضے لیں ۔ ہم بیک وقت دونوں کام کر رہے ہیں ۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں نے اقوام متحدہ میں اردو زبان میں خطاب کر کے اپنا پیغام براہ راست اپنی قوم کو پہنچایا ۔ لوگوں کو کشمیر کا ایشو پتہ ہی نہیں ۔

میری اردو تقریر سے لوگوں کو مسئلہ کشمیر سمجھنے میں مدد ملی ۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج کے دور میں کوئی جمہوری حکومت صحافت کو دبانے کی جرات نہیں کر سکتی ۔ سوشل میڈیا بہت فاسٹ ہے آپ نہ خبر دبا سکتے ہیں نہ سنسر شپ عائد کر سکتے ہیں ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حکومت میڈیا کو دباؤ میں لا رہی ہے وہ غلط کہتے ہیں ۔ میڈیا کو دبانا ممکن ہی نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ماضی میں سیاسی حکومتوں نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ۔ قرضے لے کر شاہانہ اخراجات کئے اب کوئی ہمیں قرض دینے کو بھی تیار نہیں ۔ ہمیں خود ہی اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہو گا ۔ نجات کا واحد راستہ یہی ہے ۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



Inattentional Blindness


کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…