اسلام آباد( آئی این پی ) سینیٹ کو حکومت نے آگاہ کیا ہے کہ دیامر بھاشاڈیم 2027،داسو ڈیم 2023اورمہمند ڈیم2024تک مکمل ہو جائے گا،ن لیگی دورہ حکومت میں 11ارب ڈالر سے زائد براہ راست بیرونی سرمایہ کاری پاکستان میں کی گئی ، گزشتہ تین سالوں کے دوران 3744وفاقی سرکاری ملازمین سرکاری رہائش گاہ الاٹ کی گئیں ، پاکستان میں پٹرول کی قیمت 92.83 فی لٹر اور بھارت میں 144.20 روپے ہے جبکہ ڈیزل کی قیمت بھارت میں 129روپے 65 پیسے اور پاکستان میں 106 روپے 57 پیسے ہے،
خطے کے دیگر ممالک سے بھی پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہیں، دیامر بھاشا ڈیم کے لئے کل 37 ہزار 419 ایکڑ جبکہ داسو ڈیم کے لئے 9ہزار 917 ایکڑ اراضی کی ضرورت ہے، مہمند ڈیم پراجیکٹ کی کل لاگت 309 ارب روپے سے زائد ہے، 2004ء سے 2009ء تک منگلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں 30 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے ، موجودہ ڈیموں کی صلاحیت بڑھانے کی کسی تجویز پر غور نہیں کیا جارہا۔ان خیالات کا اظہار جمعہ کو سینیٹ میں وزیر پیڑولیم غلام سرور وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان اور دیگر نے وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کیا ،سینیٹر آغا شاہ زیب درانی کے سوال کے تحریری جواب میں وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے ایوان کو بتایا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران 3744وفاقی سرکاری ملازمین کوسرکاری رہائش گاہ الاٹ کی گئی ہے ، سینیٹر محسن عزیز کے سوال کے تحریری جواب میں وزیر انچارج برائے وزیر اعظم آفس نے ایوان کو بتایا کہ 2013 سے 2018 تک کے عرصے کے دوران ملک میں ہونے والی اصل براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی رقم 11962.7ملین امریکی ڈالر ہے ،، سینیٹر مہر تاج روغانی کے سوال کے جواب میں وزارت آبی وسائل کی طرف سے تحریری جواب میں ایوان کو آگاہ کیا گیا کہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بجلی کے بلوں میں نیلم جہلم سرچارج وصول کرنے کی اس منصوبہ سے پیداوار شروع ہونے تک منظوری دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ سرچارج نیلم جہلم سے بھاشا مہمند پراجیکٹس میں تبدیل کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔سینیٹر بہرہ مند تنگی اور دیگر ارکان کے سوالات کے جواب میں وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ سرکاری گاڑیاں اور بھینسیں عام بولی کے ذریعے نیلام کی گئی ہیں اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے اخبارات میں اشتہارات دیئے گئے ہیں جبکہ اس حوالے سے تمام معلومات وزیراعظم آفس اور پیپرا کی ویب سائٹ پر دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے جتنی بھی آمدنی ہوئی ہے یا اشتہارات پر جتنی رقم خرچ ہوئی ہے
اس حوالے سے ایوان کو آگاہ کریں گے۔ سینیٹر عتیق شیخ ‘ عثمان کاکڑ اور دیگر ارکان کے سوال کے جواب میں علی محمد خان نے کہا کہ 2004ء سے 2009ء تک منگلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں 30 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے،موجودہ ڈیموں کی صلاحیت بڑھانے کی کسی تجویز پر غور نہیں کیا جارہا۔سینیٹر میاں عتیق شیخ ‘ رخسانہ زبیری اور دیگر ارکان کے سوالات کے جواب میں وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان نے کہا کہ پاکستان میں پٹرول کی قیمت 92.83 فی لٹر اور بھارت میں 144.20 روپے ہے جبکہ ڈیزل کی قیمت بھارت میں 129روپے 65 پیسے اور پاکستان میں 106 روپے 57 پیسے ہے۔
اسی طرح خطے کے دیگر ممالک سے بھی پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سینڈک ‘ کاپر‘ گولڈ پراجیکٹ ایک وفاقی منصوبہ ہے جسے پٹرولیم ڈویژن کے زیر انتظام سینڈک میٹلز لمیٹڈ چلا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینڈک میٹل لمیٹڈ کو حکومت بلوچستان نے مائیننگ لیز دی ہے جو صوبے کو تمام اخراجات اور رائیلٹی ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے 2002ء کے بعد سے ہونے والے معاہدوں کی تمام نقول ایوان کو فراہم کردی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ پٹرول پمپس اور سی این جی سٹیشنز کے ڈسپنسرز پر لگے گیجز کا ہر صوبے کے متعلقہ محکمے معائنہ کرتے ہیں۔ اوگرا بھی اس حوالے سے کارروائی کرتا ہے اور اس سلسلے میں قانون کی خلاف ورزی پر جرمانے اور این او سی کو منسوخ کرنے جیسے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ جولائی اور اگست کے دوران رواں سال 220 پٹرول پمپس کا معائنہ کیا گیا اور کم فلنگ کے 59 کیسز سامنے آئے،
سینیٹر مشتاق احمد کے سوال کے تحریری جواب میں وزارت آبی وسائل کی طرف سے ایوان کو بتایا گیا کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لئے کل مطلوبہ زمین کا رقبہ 37 ہزار 419 ایکڑ ہے جس میں سے 85فیصد رقبے یعنی 31ہزار 700ایکڑ رقبے کا قبضہ حاصل کیا گیا ہے ،داسو ڈیم کے لئے 9ہزار 917 ایکڑ اراضی کی ضرورت ہے جس میں سے 739ایکڑ زمین حاصل کی گئی ہے ۔ داسو ڈیم کے لئے کنٹریکٹرز کیمپس کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ مہمند ڈیم پراجیکٹ کی کل لاگت 309 ارب روپے سے زائد ہے۔سینیٹر ثمینہ سعید کے سوال کے جواب میں غلام سرور خان نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ بین الوزارتی کمیٹی برائے گیس ترقیاتی سکیمیں نے اپریل 2018ء میں ضلع صوابی کے علاقے چارباغ سے شوانڈ تک گیس کی فراہمی کی سکیم تجویز کی تھی۔ الیکشن کمیشن کی پابندی کے باعث اسے کابینہ سے منظوری نہ مل سکی۔ انہوں نے کہا کہ جو سکیمیں بھی منظور شدہ ہیں ان پر عمل کیا جائے گا کیونکہ فنڈز کا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔