اسلام آباد (آئی این پی)وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات چوہدری فواد حسین نے کہاہے کہ سعودی عرب سی پیک منصوبے میں تیسرا شراکت دار ہوگا ،متحدہ عرب امارات جلد پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ہم نے دیگر ممالک کو بھی اس عظیم منصوبے میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے ،ہمارے پراجیکٹس پر اپوزیشن کو آڈٹ کرانے کا حق ہے،ہمیں اس وقت معاشی سہارے اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، پی آئی اے ، پی ٹی وی ، ریڈیو پاکستان اور پاکستان اسٹیل ملز میں سیاسی بھرتیاں کی گئی،
مشرف کیس کا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں ، ان کیخلاف سیاسی مقدمات بنائے گئے جبکہ شریف خاندان اور اسحاق ڈار براہ راست کرپشن میں ملوث رہے اس لیے حکومت کی ترجیح ان کی طرف ہے۔وہ جمعرات کو نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس وقت معاشی سہارے اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب سی پیک منصوبے میں تیسرا شراکت دار ہوگا۔ متحدہ عرب امارات جلد پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ہم نے دیگر ممالک کو بھی سرمایہ کاری کیلئے کہا ہے ہمارے پراجیکٹس پر اپوزیشن کو آڈٹ کرانے کا حق ہے۔ انہوں نے کہا پیپلز پارٹی نے 10سال سے سندھ میں اپوزیشن کی طرف سے کوئی پبلک اکاؤنٹس چیئرمین نہیں بنایا۔ پی آئی سی کا چیئرمین شہباز شریف کو بنا کر نواز شریف کے پراجیکٹس کا آڈٹ کیسے کروایا جاسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہمیشہ ہی اکٹھے تھے۔ ہم لوگوں کے نمائندے ہیں اور اسی حیثیت سے لوگوں کو آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ ریڈیو پاکستان کی پنشن کا بل 1ارب سے زائد ہے۔ انہوں نے 1لاکھ 26ہزار کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کردیا جن میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو ایک دن بھی ریڈیو نہیں گئے اور پنشن کے حقدار بن گئے۔ سیاسی بھرتیاں کرانے سے الیکشن توجیتے جاسکتے ہیں لیکن ادارے تباہ ہوجاتے ہیں۔ پی آئی اے ، پی ٹی وی ، ریڈیو پاکستان اور پاکستان اسٹیل ملز میں سیاسی بھرتیاں کی گئی۔ مشاہد اللہ کے 6بھائی پی آئی اے میں بھرتی ہیں۔ ان کا کیس تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کے حوالے کردیا ہے۔
فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو وطن واپس لانے کیلئے اقدامات کررہے ہیں۔ مشرف کیس کا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کیخلاف سیاسی مقدمات بنائے گئے جبکہ شریف خاندان اور اسحاق ڈار براہ راست کرپشن میں ملوث رہے اس لیے حکومت کی ترجیح ان کی طرف ہے۔ جہانگیر ترین کرپشن کے الزام میں نااہل نہیں ہوئے۔ انکا معاملہ نواز شریف کے کیس سے الگ ہے۔ پارٹی ان سے نجی معاملات میں رائے لیتی ہے جو غلط نہیں ہے۔ پنجاب میں ڈی پی او کا ٹرانسفر وزیراعلیٰ ہی کرتا ہے۔ پنجاب میں ڈی پی او وزیر اعلیٰ پنجاب کو جواب دہ ہے۔ آئی جی کو اختیار نہیں کہ وہ ڈی پی او کا تبادلہ کرے۔ پنجاب حکومت کو علم نہیں تھا کہ سپریم کورٹ میں کیا بات کرنی ہے۔